تحریر: سید اسد عباس
(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ ) (روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)فلسطینی ریاست کو اسرائیل میں شامل کرنے کے ظالمانہ اور غاصبانہ پروگرام کا مقابلہ صرف مسلح مزاحمت سے ممکن ہے،
یہ کہنا ہے حماس کے سیاسی شعبے کے سینیئر رکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا عربی اخبار السبیل کو دیئے گئے ایک طویل انٹرویو میں ابو مرزوق نے کہا کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے سوا اور کسی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔
انھوں نے کہا کہ غرب اردن پر اسرائیلی ریاست کا غاصبانہ قبضہ کرنے کا پروگرام جرائم کے تسلسل کی ایک نئی کڑی ہے۔ اسرائیلی ریاست فلسطینی سرزمین پر قبضے کے ساتھ ساتھ فلسطین کے وسائل کی لوٹ مار کرنا چاہتی ہے۔ حماس اسرائیلی دشمن کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف تمام ممکنہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مزاحمت جاری رکھے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم جس ریاست کا مطالبہ کرتی ہے، وہ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پھیلی ہوئی ہے، جس پر کسی دوسری غیر قوم کا کوئی وجود گوارا نہیں ہوگا۔ فلسطین کا مستقبل اس کی مکمل آزادی اور خود مختاری ہے۔ ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ غرب اردن، غزہ اور القدس فلسطین کے حصے ہیں۔ اگر اسرائیل غرب اردن پر قبضہ کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں یہ علاقہ سات حصوں میں بٹ کر رہ جائے گا۔ ہر حصہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہوگا اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقے صہیونی ریاست کا حصہ ہوں گے۔ القدس دیوار فاصل کے عقب میں ہوگا اور یوں فلسطینی ریاست ایک ایسا ملک بن جائے گی، جس کا کوئی دارالحکومت نہیں ہوگا۔
فلسطین کے سابق وزیر برائے امور اسیران وصفی قبہا نے کہا ہے کہ غرب اردن، وادی اردن اور بحر مردار کے علاقوں پر اسرائیلی ریاست کی خود مختاری صہیونی ریاست کے ساتھ امن مذاکرات کا ڈھونگ رچانے والوں کے لیے واضح اعلان ہے کہ ان کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئی ہیں۔
فلسطینی علاقوں کا اسرائیل سے الحاق نام نہاد امن منصوبے کو قبر میں اتارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ وصفی قبہا نے کہا کہ غرب اردن پر اسرائیلی ریاست کا قبضہ مسجد ابراہیمی کو اپنی تحویل میں لینے اور مسلمانوں کو اس مقدس مقام سے محروم کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں، آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا ہے۔
اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا بھی برابر کا شریک مجرم ہے۔ سابق فلسطینی وزیر کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس اسرائیل کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر وہ فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے سنجیدہ نہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے یکم جولائی سے مغربی کنارے کے تیس فیصد حصے پر اپنی خود مختاری کے منصوبے کے اجراء کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے اس کے مدنظر تین مجوزہ منصوبے ہیں، ایک منصوبہ اردن کی سرحد کے علاقے کو پہلے مرحلے میں اسرائیل میں شامل کرنا ہے، جبکہ دوسرا منصوبہ مغربی کنارے کے بعض علاقوں کو اسرائیل سے ملحق کرنا اور تیسرا منصوبہ بعض یہودی آبادیوں کو اسرائیل سے ملحق کرنا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے الحاق کے منصوبے کے اجراء کے اعلان کو دنیا بھر میں ایک تشویشناک امر کے طور پر لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے یورپی ممالک اور عالمی برادری کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ یورپی پارلیمان کے بہت سے اراکین نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے، وادی اردن اور مقبوضہ فلسطین کے دوسرے علاقوں پر اسرائیل کا اپنی خود مختاری قائم کرنے کا اعلان عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔
یہ پیٹیشن ایک مکتوب کی شکل میں اقوام متحدہ کو ارسال کی گئی ہے، جس پر 240 برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے بھی دستخط کیے ہیں۔ جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے الحاق کے منصوبے پر عمل کیا تو اس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں اور ممکن ہے کہ یورپ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے۔
مبصرین کے مطابق نیتن یاہو کی جانب سے فلسطینی علاقوں کو اپنے ملک کے ساتھ ملحق کرنے کی کوشش میں تیزی، جو اس سے قبل کی دائیں بازو کی حکومتوں میں نہیں دیکھی گئی، کی وجہ آئندہ امریکی انتخابات ہیں، کیونکہ اگر ان انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ کوئی اور شخص برسر اقتدار آتا ہے تو قوی امکان ہے کہ ٹرمپ کے نام کا امن فارمولا بھی اپنی موت آپ ہی مر جائے گا۔
یہ واحد فارمولا ہے، جس میں 53 برس کے بعد اسرائیل کو الحاق کے لیے کھلی چھوٹ فراہم کی ہے۔ جو بائیڈن جن کو امریکی پولز کے مطابق ٹرمپ پر برتری حاصل ہے، پہلے ہی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ میں ٹرمپ کے منصوبے اور اسرائیل کے یکطرفہ الحاق کے عمل کو ریورس کروں گا، کیونکہ یہ منصوبہ امن کی روح کے خلاف ہے۔ امن منصوبے کا بانی ٹرمپ کا داماد جارڈ کشنر بھی فلسطینی علاقوں کے سریع الحاق کا حامی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں ایک میٹنگ میں کہا ہے کہ اگر الحاق کا اجراء کیا گیا تو یہ عالمی قوانین کی شدید خلاف ورزی ہوگی اور دو ریاستی حل پر دوبارہ مذاکرات نہایت مشکل ہو جائیں گے۔ انٹونیو گوئٹریس نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ الحاق کے اس منصوبے کو فی الفور ترک کرے۔ عرب لیگ کے ممالک نے بھی یکطرفہ الحاق کے اعلان کی مذمت کی ہے۔
نیتن یاہو ان سب حالات اور بیانات کے باوجود الحاق کے عمل کو مسلسل بڑھا رہا ہے اور تاحال اس نے اس کے خاتمے کا اعلان نہیں کیا۔ جارڈ کے بیان کے بعد اسرائیل کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی حکومتی حمایت سے دستبردار ہوچکی ہے، جس سے انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا امکان پیدا ہو چلا ہے۔
یہ نیتن یاہو کے لیے الحاق کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی بہترین صورتحال ہوسکتی ہے، کیونکہ اگر اس صورتحال میں دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو اس سے ایک جانب تو نیتن یاہو کے خلاف ہونے والا کرپشن کا ٹرائل رک جائے گا، دوسرا اسرائیلی پولز کے مطابق نیتن یاہو کی حکومت ملک کی اکثریتی جماعت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
نیتن یاہو کے لیے ملکی سیاست اور حکومت سازی کے حوالے سے یہ برا اعلان نہیں ہے۔ اسرائیلی مبصر اکیلا ادوار کے مطابق اگر ٹرمپ کی جانب سے پھر بھی الحاق کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے تو علاقائی الحاق اسرائیل کی سیاسی تنہائی میں بدل سکتا ہے۔