منامہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) تحریر :صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤ نڈیشن پاکستا ن
پی ایچ ڈی اسکالر،شعبہ سیاسیات ،جامعہ کراچی
صدی کی ڈیل ، یا صدی کا معاہدہ، یہ مغربی ایشیائی ممالک کے لئے اور خصوصا فلسطین کے لئے امریکی منصوبہ ہے۔جس کا مقصد فلسطین کے مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں ختم کرنا ہے اور خطے کی عرب خلیجی ریاستوں سمیت دنیا کی مسلمان ریاستوں کو غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قریب تر کرنا ہے۔اس ڈیل کے تمام پہلوؤں کو مخفی رکھا گیا ہے لیکن ایک آدھ ملک کی طرف سے اس کے کچھ خد وخال افشاں کئے گئے ہیں۔اس ڈیل کوبنانے میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت عرب دنیا کی ایک بڑی شخصیت بھی شامل ہے۔فی الحال امریکہ نے ا س ڈیل کو رسمی طور پر اعلان نہیں کیا ہے تاہم یہ معاہدہ عرب دنیا و خلیجی ممالک کی حکومتوں کے سربراہان کی میز کی زینت بن چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اکثریت اس پر دستخط کر چکی ہے۔خود صہیونیوں کے ایک اعلی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ امریکہ نے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیا ہے جس کی ترتیب میں ٹرمپ کے داماد کوشنر اور دیگر شخصیات سرگرم عمل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوشنر نے ماضی قریب میں متعدد عرب و مسلمان ممالک کے دورے کئے ہیں اور سربراہان مملکت کے ساتھ طویل قسم کے مذاکرات کر کے ان کو صدی کی ڈیل پر قائل کیا ہے۔حالیہ دنوں مغربی ذرائع ابلاغ سمیت عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ میں صدی کی ڈیل کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکہ اس ڈیل کا باقاعدہ اعلان جون کے مہینہ میں کرنے جا رہاہے ۔اس ڈیل کے تحت امریکہ یہ چاہتا ہے کہ مغربی ایشیائی ممالک پر صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کا مکمل کنٹرول رہے اور اس کام کو انجام دینے کے لئے امریکہ نے صدی کی ڈیل میں خطے کی ریاستوں کے لئے معاشی پیکج کے نام پر رشوت کا بندو بست کیا ہے۔صدی کی ڈیل کو تسلیم کرنے کے عوض کئی ایک شہزادوں کو بادشاہت دینے اور پہلے سے بادشاہت کے تخت پر موجود بادشاہوں کو ان کی بادشاہت کے لئے اگلے پچاس پچاس برس کی ضمانت دی گئی ہے۔حقیقت میں ایک ایسی ڈیل ہے جس میں پیسہ خرچ کر کے عرب حمیت اور غیرت کا سودا کیا جا رہاہے۔ایک طرف صدی کی ڈیل عرب دنیا کو پیسہ سے خرید رہی ہے تو دوسری طرف یہی کوشش فلسطین کے لئے کی جا رہی ہے کہ فلسطینی تحریکوں کو بھی پیسہ سے خرید لیا جائے اور فلسطین پر مکمل صہیونی تسلط قائم کر دیا جائے اور تاریخ کے اوراق سے فلسطین نام کو حذف کر کے اسرائیل نام سے تبدیل کیا جائے۔صدیکی ڈیل کی سب سے بڑی اور گہری سازش یہی ہے۔صدی کی ڈیل کی بنیادی معلومات ایک ایسے عرب ملک کی جانب سے افشاں کی جا رہی ہیں کہ جو خود بھی اس ڈیل کے نتیجہ میں شدید مشکلات کا شکار ہونے جا رہاہے ۔ابھی بھی اس عرب ریاست کی معاشی حالت دگر گوں ہے۔تاہم افشاں ہونے والی چند ایک معلومات کے مطابق صدی کی ڈیل کے تحت اسرائیل کے پاس یہ حق بھی رکھا جائے گا کہ اسرائیل فلسطین کی زمینوں پر جہاں چاہے اور جس قدر چاہے صہیونیوں کی آباد کاری انجام دے گا۔صدی کی ڈیل کے تحت یہ طے کیا جا رہاہے کہ بیت المقد س جو مسلمانوں کو قبلہ اول ہے۔اور یروشلم شہر جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ مسیحی مذہب کے پیروکاروں کا بھی مقدس شہر تصور کیا جاتا ہے اس کی شناخت کو تبدیل کیا جائے،ا س عنوان سے امریکی صدر کا گذشتہ برس کا یکطرفہ احمقانہ اعلان پہلے ہی سامنے آچکا ہے۔صدی کی ڈیل کے تحت ہی شام کے جولان کے علاقے کو بھی امریکہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں دینے کا اعلان کر چکا ہے جس پر پہلے ہی پوری دنیا نے امریکہ کی سخت مذمت کی ہے۔صدی کی ڈیل کے تحت ہی امریکہ نے مقبوضہ فلسطین کے علاقہ تل ابیب سے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کیا ہے تا کہ اس علاقہ کی شناخت کو اسرائیل کے حق میں تبدیل کر سکے۔القدس کو صدی کی ڈیل کے تحت تقسیم کی سازش کی جا رہی ہے۔جبکہ تاریخی اعتبار سے پورا قدس پورے فلسطین کا حصہ ہے ، اس میں مشرقی اور مغربی قدس کی تقسیم بندی دراصل صہیونی لابی کو خوش کرنے کی امریکی صدر کی ناپاک سازشوں میں سے ایک ہے۔موجودہ دور میں قبلہ اول یعنی القدس کے اوقاف سے متعلق معاملات اردن کے پا س ہیں، تاہم صدی کی ڈیل کے تحت یہ سب اختیارات صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔صدی کی ڈیل کے تحت فلسطینی عرب عوام پر پہلے ہی پانی سمیت دیگر سہولیات پر بھاری قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جو صہیونی جعلی حکومت کو جا رہے ہیں۔صدی کی ڈیل میں کہا گیا ہے کہ صہیونیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ فلسطین میں کوئی بھی زمین خرید سکتے ہیں لیکن کلسی فلسطینی عرب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کوئی زمین خریدے۔صدی کی ڈیل کے ساتھ متفق مصری حکومت نے فلسطین کے لئے ایک نئی زمین کی پیش کش کر دی ہے۔ جہاں نیا ہوائی اڈہ بھی تعمیر کر کے دیا جائے گا اور ساتھ ساتھ انفرااسٹرکچر بھی دیا جائے گا۔اس زمین پر حتمی طور پر اعلان نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کس مقام پر ہو گی۔دراصل اس کا مقصد اصل فلسطین سے فلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنا ہے۔صدی کی ڈیل سے متفق اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے والے عرب ممالک کے ساتھ مالی پیکج تیار کیا گیا ہے،ا مریکہ پہلے مرحلہ میں تیل کی دولت سے مالا مال عرب خلیجی ممالک سے پانچ بلین ڈالر کی رقم لے کر فلسطین سے نکال کر فلسطینیوں کے لئے نئی زمین کے ٹکڑے پر ریاست قائم کرنے کے لئے خرچ کئے جائیں گے۔صدی کی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکہ نے اپنے لئے کل اخراجات کا 20فیصدجبکہ یورپی یونین ا سکے لئے 10فیصد اور عرب خلیجی ممالک باقی کا 70فیصد ادا کریں گے۔صدی کی ڈیل کے تحت نئی زمین پر جہاں فلسطین کو قیام کرنے کا کہا گیا ہے ، اس مقام پر فلسطین کو اپنی فوج بنانے کا حق حاصل نہیں ہوگا صرف پولیس ہو گی۔اس ڈیل کے مطابق اسرائیل ایک معاہدے کے تحت نئی فلسطینی ریاست کا دفاع کرے گااور ا س کا ضامن ہو گا۔یعنی حقیقت میں فلسطینیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں فروخت کئے جانے کا پورا پلان ترتیب دیا گیا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے عوام کے ساتھ اور بالخصوص مسم امہ کے ساتھ ایک بہت بڑی خیانت کا ارتکاب کیا جا رہاہے ۔صدی کی ڈیل کے خد وخال بتا رہے ہیں کہ عالمی سامراجی قوتیں فلسطینیوں کے حقوق کو ماننے سے انکاری ہیں ۔پس ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کی تمام عالمی طاقتوں کی جانب سے لگائے جانے والے دفاع انسانی حقوق کے نعرے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں دراصل صدی کی ڈیل کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک تو شاید کسی حد تک خود کو اس قضیہ سے علیحدہ کر لیں گے لیکن اس صدی کی ڈیل کی حمایت میں سرگرم عرب مسلمان ممالک کے حکمران یقینا مستقبل میں اپنی ہی گردن میں پھندا ڈالنے کا خود انتظام کر رہے ہیں۔دوسری طرف فلسطینی ہیں کہ جنہوںنے تاحال امریکہ کی جانب سے صدی کی ڈیل کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اس کے خلاف سخت مزاحمت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔موجودہ حالات میں مسلمانان عالم اور دنیا کے حریت پسندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آنے والے ایام میں جمعة الوداع کو عالم یوم القدس کے موقع پر بھرپور اتحاد و یکجہتی اور القدس کی بازیابی کے لئے بھرپور احتجاج کے ذریعہ امریکی منصوبوںکو ناکام بنا دیں۔