تحریر: سید حسن بخاری
اس تحریر میں فلسطین کے مسئلے کو بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں جانچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا بین الاقوامی قوانین میں فلسطین کے اس مسئلے کا کوئی قانونی حل موجود بھی ہے یا نہیں؟
آیا آج تک اس مسئلے کے قانونی حل کے لئے کوئی کوشش کی گئی ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ آیا اقوام متحدہ کی پیشرفت کا باعث بنے گا؟ آیا اقوام متحدہ کی موجودہ قرارداد اس مسئلے کے حل میں کسی قسم کی پیشرفت کا باعث بنے گی یا نہیں؟
:موجودہ فلسطین
موجودہ فلسطین تین حصوں میں تقسیم ہے، پہلا حصہ مقبوضہ فلسطین کا ہے کہ جس کی آبادی تقریباً گیارہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، غاصب صیہونی حکومت نے برطانیہ کی سازش سے ایک غیر منطقی اور غیر قانونی اعلان بالفور نامی کے ذریعے 1948ء میں اس حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسرا حصہ 5650 مربع کلومیٹر پر مشتمل بیت المقدس کا علاقہ ہے کہ جس کی آبادی تقریباً پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تیسرا حصہ 350 مربع کلو میٹر پر مشتمل غزہ کی پٹی کا علاقہ ہے کہ جس کی آبادی کوئی سترہ لاکھ کے قریب ہے۔ تقریباً 5 سے 6 ملین کے قریب فلسطینی غاصب اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے بعد بے گھر ہو کر ہمسایہ ممالک شام اور لبنان میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
:بین الاقوامی قراردادیں، معاہدے اور فلسطین
بین الاقوامی قوانین دو طرح سے وجود میں آتے ہیں، پہلی صورت یہ کہ کچھ بنیادی اصولوں کی تمام ممالک رعایت کرتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں ایک عرف کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے، اور دوسری صورت مختلف ممالک اور عالمی اداروں کے درمیان ہونے والے وہ معاہدات ہیں، جن کی پابندی دوسرے ممالک اپنے لئے لازمی قرار دے لیتے ہیں۔ فلسطین پر 1948ء میں غاصب صیہونی حکومت کے قبضے سے لے کر آج تک غاصب اسرائیل نے کبھی بھی اپنے آپ کو ان بین الاقوامی تسلیم شدہ اصولوں یا معاہدوں کا پابند نہیں پایا اور اس سے بڑھ کر افسوس ناک بات یہ کہ ان اصولوں اور معاہدوں پر ناظر ادارہ اقوام متحدہ بھی غاصب اسرائیل کو ان اصولوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہاں اسرائیل کی چند بین الاقوامی قانون شکنیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے 1948ء میں فلسطین کی غیر منصفانہ اور ناعادلانہ تقسیم کی ایک قرار داد کے ذریعے فلسطین کے ایک حصے کو یہودی ملک کے نام پر تسلیم کر لیا گیا۔ (البتہ فلسطینوں نے کبھی بھی اس غیر منصفانہ قرارداد کو تسلیم نہیں کیا) اس قرارداد کے وقت فلسطین میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی تعداد پچاس لاکھ ظاہر کی گئی اور یہودیوں کی تعداد 49 لاکھ کے قریب ظاہر کی گئی۔ صیہونوں نے زیر تسلط آنے والے حصے میں موجود فلسطینیوں کا وحشیانہ انداز میں قتل عام کیا اور تقریباً دس لاکھ فلسطینیوں کو گھر چھوڑ کر نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس وقت کے اپنے خصوصی ایلچی برنادوت کی تجویز پر 11دسمبر 1948ء کو اپنی قرارداد نمبر 194 پیش کی، جس میں یوں کہا گیا کہ ملک بدر ہونے والے ایسے افراد جو اپنے گھروں کو واپس جانا اور اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پرامن زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں، جلد سے جلد ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے اور جو افراد وطن واپسی کے متمنی نہیں ہیں، ان کے مالی اور جانی نقصان کا تخمینہ لگا کر نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ مگر غاصب اسرائیل نے اس قرارداد کو ماننے سے انکار کر دیا اقوام متحدہ کی امن کمیٹی بھی اسرائیل کو اس قرارداد پر عمل کرنے پر راضی نہ کر سکی، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کانٹ برنادوت کو صیہونی گروہ کے کارندوں نے قتل کر دیا۔
یاد رہے کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر تقریباً ایک کروڑ بنگلہ دیشی شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، مگر جونہی جنگ ختم ہوئی یہ لوگ اپنے وطن واپس لوٹ گئے، مگر ادھر فلسطین میں گھر کے اصل باسیوں کا گھر لوٹنا غاصب حکومت کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے خواب ہی رہا۔ اقوام متحدہ کی اس غیر منصفانہ قرار داد کے مطابق سرزمین فلسطین کی 57 فیصد خاک غاصب حکومت کے قبضے میں چلی گئی، مگر غاصب حکومت نے اس پر اکتفا نہ کیا اور 1949ء تک فلسطین کے 80 فیصد علاقے پر اپنا قبضہ جما لیا۔ غاصب حکومت نے فلسطینیوں کے گھروں اور دکانوں کو تباہ و برباد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا،
صرف سال 1948ء میں 7800 کے قریب دکانیں، دفاتر اور فیکٹریاں تباہ کر دی گئیں۔ جبکہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹ ایکٹ کے پیرا گراف2 آرٹیکل 17 کے مطابق کسی شخص کو بھی اس کے مال سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا غاصب حکومت کا یہ عمل صریحاً عالمی قوانین کے خلاف تھا۔ اقوام متحدہ نے 29نومبر 1947ء کی قرارداد نمبر 181 کے ذریعے فلسطینیوں کی جائیداد اور اموال کو غاصب حکومت کے مقابلے میں تحفظ فراہم کیا گیا، مگر غاصب حکومت نے اس قرارداد کی بھی اعتنا نہ کرتے ہوئے 1967ء میں بیت المقدس میں داخل ہوتے ہی فلسطینیوں کی جائیدادوں اور اموال پر قبضہ کر لیا، جس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور اقوام متحدہ کی امن کونسل نے مذمت بھی کی، مگر بے سود۔
1967ء میں غاصب اسرائیل نے چند ہمسایہ ممالک پر فوجی چڑھائی کرکے ان ممالک کے کچھ علاقے قبضے میں لے لئے، اقوام متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر242 کے تحت غاصب اسرائیل کو یہ علاقے چھوڑنے کا کہا، مگر غاصب حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور مصر و شام کے کچھ علاقے آج تک غاصب اسرائیل کے زیر تسلط ہیں۔
:انسانی حقوق اور فلسطین
انٹرنیشنل ہیومن رائٹ ڈکلیریشن 1848 کے مطابق حق زندگی، حق آزادی، حق امن و امان، حق مالکیت وغیرہ تسلیم شدہ حقوق ہیں۔ اسی طرح 1949ء کے جنیوا کنونشن کے مطابق جنگ کے دوران نہتے اور غیر مسلح افراد کی حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری قابض حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ جینوا کنونشن کے معاہدے کے آرٹیکل 27 کے تحت ہر قسم کی شرئط میں نہتے اور غیر مسلح افراد اپنی شخصیت، حرمت، مذہب اور رسم و رواج کے عنوان سے آزاد ہوں گے، اسی معاہدے کے آرٹیکل 32،33،49 اور 53 بالترتیب بے گناہوں کو سزا دینے، دہشتگردی، غارتگری، اجتماعی سزا دینے، نقل مکانی پر مجبور کرنے، منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو منہدم کرنے سے روکتے ہیں۔
ان سب قوانین کے باوجود 1948ء سے لے کر آج تک غاصب حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا ہے، جس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ غاصب اسرائیل کو ایک ایسی لابی چلا رہی ہے، جس کی سرشت میں قوانین و اصولوں کی خلاف ورزی شامل ہے، دوسرا یہ کہ عالمی قوانین بنانے والے ادارے اتنے کمزور اور ناتوان ہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کروانے سے قاصر ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بین الاقوامی قانون بنانے اور ان پر ناظر ادارے اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کی طاقت نہیں رکھتے تو یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا پڑے گا کہ یہی ادارے دنیا میں بہت سارے مقامات پر ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالی پر فوراً نوٹس بھی لیتے، قانون بھی بناتے اور پھر ان پر عمل بھی کراتے ہیں۔ مگر وہ ان علاقوں میں امکان پذیر ہوتا ہے جہاں ان کے مفادات ہوتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
ٹوکیو اور نر مبرگ کی عدالتوں کے بنانے اور سزائیں دینے سے لے کر یوگو سلاویہ، روانڈا، مشرقی تیمور، دارفور (سوڈان) اور دوسرے بہت سارے مسائل میں فوراً عدالتیں اور ٹربیونل تشکیل پاتے ہیں اور کام بھی شروع کر دیتے ہیں۔ 14 فروری 2005ء کو لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل پر اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1759 کے ذریعے فوراً بین الاقوامی عدالت تشکیل دے دی جاتی ہے مگر 1948ء کے ناجائز قبضے، 1967ء کی ہمسایہ ممالک پر فوجی چڑھائی، 1982ء کی نسل کشی، 2007ء کے محاصرہ، اور اب 2012ء کے یکطرفہ حملے پر کوئی عالمی ادارہ حرکت میں نہیں آتا۔ ایسے میں یہ کہنے پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ عالمی ادارے جن کے نرغے میں ہیں، ان کے مفادات دنیا میں امن و آتشی و صلح کی بجائے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی میں پوشیدہ ہیں۔
اب اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ممالک نے خصوصاً عرب ممالک نے، جو سب عالمی قوانین اور معاہدوں کا حصہ بھی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے فلسطین کے مظلوم عوام کے قرابتدار بھی ہیں، اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟ مصر ہی کو دیکھ لیں 2007ء میں غاصب اسرائیل کی طرف سے غزہ کے محاصرے کے دوران غزہ جانے والی تنہا گذرگاہ رفح کو بند کر دیتا ہے اور فلسطینیوں کی بھوک و اشیا خورد و نوش کی قلت سے اجتماعی نسل کشی میں غاصب حکومت کا ہاتھ بٹاتا ہے ۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کہ صرف اور صرف فلسطین کے ایشو پر وجود میں آئی تھی، دنیا کے 57ملکوں کی نمائندگی کے باوجود اس سلسلے میں کسی قسم کا موثر قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔
ان سب قوانین و مقررات کے ساتھ ساتھ غاصب اسرائیل اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا رکن ہونے کی وجہ سے نسل کشی اور جنگی جرائم کے اپنے فوجی اور سیاسی مجرموں کو اپنی داخلی عدالتوں میں سزا دینے کا پابند ہے، مگر قاتل سے انصاف کی توقع ایک عبث خیال کے علاوہ کچھ نہیں، کیونکہ بحث عالمی قوانین کے عنوان سے تھی، لہذا اس کا ذکر بھی کر دیا، لیکن تعجب ہے غاصب حکومت کے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے پر کہ جس کی عدالتیں ایک جھوٹے افسانے ہولوکاسٹ کے انکار پر تو مقدمہ درج بھی کرتی ہیں، سماعت بھی ہوتی ہے اور اس افسانے کا منکر سزا بھی پاتا ہے، مگر فلسطین کے مہاجر کیمپوں میں بچوں اور خواتین کے قتل پر ان کے کسی فوجی یا سیاست دان کو کٹہرے میں نہیں لایا جاتا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔۔۔
:عالمی فوجداری عدالت اور مسلۂ فلسطین
عالمی فوجداری عدالت بھی اپنے 1997ء میں پاس ہونے والے منشور کے خلاف کہ جس کے تحت صرف جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم ہی اس عدالت کے دائرہ کار میں شامل ہیں، فلسطین میں ہونے والے ان جرائم پر مناسب اقدام کرنے سے قاصر ہے، عالمی فوجداری عدالت کے منشور کے آرٹیکل 12 اور 13 کے مطابق اس عدالت میں تین طریقوں سے سماعت شروع ہو سکتی ہے۔
پہلی صورت یہ کہ نسل کشی، جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم میں سے کوئی ایک جرم اس عدالت کے رکن ممالک کی سرزمین پر یا اس اس عدالت کے رکن ممالک کے شہریوں کی طرف سے انجام پائے، اس وقت 121 ممالک اس فوجداری عدالت کے رکن ہیں۔ دوسری صورت یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دنیا میں کسی جگہ ہونے والے مذکورہ تین میں سے کسی جرم کی شکایت کرے تو عالمی فوجداری عدالت اس مسئلے کی سماعت کرسکتی ہے، اس میں اس سرزمین یا ملک کا اس عدالت کا باقاعدہ رکن ہونا ضروری نہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اب تک فلسطین میں ہونے والے جنگی جرائم، فلسطینیوں کی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں سے کسی جرم کی بھی عالمی فوجداری عدالت میں شکایت نہیں کی، جبکہ اسی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر1593 کے ذریعے دارفور (سوڈان) کی صورت حال اور اس ملک میں ہونے والے جنگی جرائم کی عالمی فوجداری عدالت میں شکایت کی، جس پر اس عدالت نے فوراً نوٹس لیا اور ان جرائم میں ملوث افراد کو سزا بھی دی۔
تیسری صورت کسی بھی ملک کی طرف سے اپنی سرزمین پر مذکورہ بالا تین جرائم میں سے کسی بھی جرم کے ارتکاب کی شکایت ہے کہ عالمی فوجداری عدالت اس شکایت پر سماعت شروع کر سکتی ہے۔ اس صورت میں بھی عالمی فوجداری عدالت کا باقاعدہ رکن ہونا ضروری نہیں ہے۔ 21 جنوری 2009ء کو عالمی فوجداری عدالت کے منشور کے آرٹیکل 12 کی بنیاد پر فلسطین کے اس وقت کے وزیر قانون کی طرف سے اس عدالت میں غزہ میں ہونے والے اسریئلی جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی باقاعدہ شکایت دائر کی گئی، جسے اس عالمی عدالت نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ فلسطین عالمی فوجداری عدالت کا باقاعدہ رکن نہیں ہے، لہذا یہ عدالت اس سرزمین میں ہونے والے جرائم کی سماعت کا حق نہیں رکھتی، جبکہ اس عدالت کے منشور کے آرٹیکل 12 اور 13 اسے غیر رکن ممالک کی شکایت پر بھی سماعت کا پابند بناتے ہیں۔ یوں اس عالمی ادارہ نے بھی ایک کمزور قانونی عذر پیش کرکے اس خطے میں ہونے والے عظیم انسانی سانحہ سے چشم پوشی کر لی۔
:فلسطین کے مسئلے کا واحد راہ حل
ایسے میں جب ایک غاصب حکومت بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا رہی ہو اور ساری عالمی برادری مل کر بھِی اس غاصب حکومت کو ان خلاف ورزیوں سے نہ روک سکے یا روکنا نہ چاہے تو قوانین کے نظریات دینے والے دانشوروں کی یہ بات ذھن میں آتی ہے کہ قانون طاقت ور کی لاٹھی ہے، وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی اسرائیل کے سامنے ناتوانی و کمزوری اور اسرائیل کی 60 سالہ ہٹ دھرمی و قانون شکنیاں اس نتیجہ کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اقوام متحدہ کی حال حاضر میں پاس ہونے والی قرارداد کہ جس میں فلسطین کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ دیا گیا ہے اس مسلئے کو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے گی۔
العمل کمیٹی فلسطیں کے سربراہ سمیع الخلف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس نکتے کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قرارداد کا حال بھی اقوام متحدہ کی گذشتہ قراردادوں اور دوسرے بین الاقوامی معاہدوں اور قوانین جیسا ہوگا۔ مسئلہ فلسطیں کے حل میں اصل رکاوٹ اسرائیل کی ھٹ دھرمی، عالمی طاقتوں کی چالیں، عالمی اداروں کی اسرائیل کے سامنے ناتوانی اور امت مسلمہ کی کمزوری ہے، جب تک یہ روکاوٹیں دور نہیں ہوتیں مسئلہ کا حل یا اس راہ میں کوئی پیش رفت بعید دکھائی دیتی ہے۔
ان ساری باتوں کے بعد فلسطین کے مسئلے کا آخری حل صرف اور صرف فلسطینی عوام کی استقامت و پائیداری کے ساتھ مقاومت اور اس راہ میں صبر دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایک ملت اپنے آزادی اور استقلال کے حق سے محروم ہو جائے تو تا ابد غلامی اس کا مقدر ہو جاتی ہے، یعنی اگر آج ملت مظلوم فلسطین اپنے آزادی اور استقلال کے حق سے دستبردار ہو جائے تو تا ابد غلامی ان کا مقدر ہو جائے گا۔ آزادی اور استقلال کے لئے استقامت بین الاقوامی قوانین سے ہٹ کر دنیا کے ہر مذہب میں تسلیم شدہ حق ہے، قرآن مجید کی سورہ مبارکہ شوری کی آیہ 39میں آیا ہے کہ "والذین اذا اصابتھم البغی ھم ینتصرون”۔ اور مزید اس طرح آیا ہے کہ ، جن پر ظلم کیا گیا انھیں قتال کی اجازت دی گئی ہے/دی جاتی ہے۔