روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ:- یوسف السباعی مصر کے ایک معروف صحافی اور ادیب تھے۔ وہ مصر کے سب سے بڑے اخبار الاحرام سمیت کئی دیگر اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ انور السادات مصر کے صدر بنے تو انہوں نے یوسف السباعی کو اپنا وزیر ثقافت بنا دیا۔ وزیر بننے کے باوجود انہوں نے افریقی اور ایشیائی ادیبوں کے ترجمان جریدے ’’لوٹس‘‘ کی ادارت نہیں چھوڑی۔
یہ ترقی پسند ادیبوں کا ترجمان جریدہ تھا جس کے اخراجات سابقہ سوویت یونین کی حکومت برداشت کرتی تھی لیکن اس کا عربی ایڈیشن قاہرہ سے شائع ہوتا تھا اور مصری حکومت بھی اس جریدے کی سرپرستی کرتی تھی۔
نومبر 1977ء میں یوسف السباعی اُس وفد میں شامل تھے جس نے انور السادات کی قیادت میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ سادات اور یوسف السباعی دونوں پر شدید تنقید شروع ہو گئی۔
یوسف السباعی فروری 1978ء میں افریقی اور ایشیائی ادیبوں کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے قبرص آئے۔ یہاں اُنہیں تنظیم آزادی فلسطین سے علیحدہ ہو جانے والے ابوندال گروپ نے قتل کر دیا۔ اس قتل کے باوجود صدر انور السادات نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں سمجھوتے پر دستخط کئے۔ دو سال کے بعد انور السادات کو بھی ایک فوجی پریڈ کے معائنے کے دوران قتل کر دیا گیا۔
یوسف السباعی کے قتل کے بعد لوٹس کو ایک نئے ایڈیٹر کی ضرورت تھی۔ افریقہ کے ملک انگولا میں افریقی اور ایشیائی ادیبوں کی انجمن کا اجلاس منعقد ہوا اور اس میں فیصلہ ہوا کہ لوٹس کی ادارت پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض کے سپرد کی جائے۔
مسئلہ یہ تھا کہ مصر کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے بعد اس جریدے کو قاہرہ سے شائع کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ یہ جریدہ امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں کا ناقد تھا۔ اس اجلاس میں فلسطینی شاعر معین بسبیو نے لوٹس کو بیروت سے شائع کرنے کی پیشکش کی۔
وہ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کے مشیر ثقافت بھی تھے۔ انہوں نے 1979ء میں بیروت میں فیض صاحب کی یاسر عرفات سے ملاقات کا اہتمام کیا اور یوں لوٹس کی بیروت سے اشاعت شروع ہوئی۔ یہ لبنان میں خانہ جنگی کے آغاز کا زمانہ تھا اور فیض احمد فیض خرابی صحت کے باوجود اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر تحریک آزادی فلسطین کا حصہ بن گئے کیونکہ اُن کے دن رات فلسطینی مجاہدوں کے ساتھ گزرتے تھے۔
2006ء میں لبنان اور اسرائیل کی جنگ کے دوران مجھے بیروت میں کافی دن گزارنے کا موقع ملا۔ اس جنگ کی رپورٹنگ کے دوران مجھے بیروت میں ایسے صحافی ملے جنہوں نے فیض صاحب کو قریب سے دیکھا تھا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ فیض صاحب مصری گلوکارہ امّ کلثوم کی طرف سے علامہ اقبالؒ کے گائے گئے کلام کا حوالہ دے کر انہیں بتایا کرتے تھے کہ پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبالؒ کو فلسطینیوں سے بڑی محبت تھی۔
بیروت میں قیام کے دوران مجھے مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل ہوئی اور پتہ چلا کہ مفتی امین الحسینی صرف ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد کے بانیوں میں شامل تھے اور ان کے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے۔ بیروت سے پاکستان واپسی پر میں نے مفتی امین الحسینی اور بانی پاکستان کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کو تلاش کیا تو مجھے اخوان المسلمون کے رہنما حسن البنااور قائد اعظمؒ کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کا سراغ بھی مل گیا جو ڈاکٹر زوار حسین زیدی کے مرتب کردہ جناح پیپرز میں محفوظ ہے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ فلسطین کے متعلق علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے دو ٹوک موقف کو ہماری نصابی کتب میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطین کے متعلق اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے بیانات اور خطوط میں برطانیہ و امریکہ کے بارے میں بہت سخت الفاظ شامل ہیں۔
بعض جگہ قائداعظمؒ نے مسئلہ فلسطین کو مسئلہ کشمیر سے بھی جوڑا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر 1933ء سے 1947ء کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے 18قراردادیں منظور کیں جن میں برطانوی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ یہ قراردادیں اُن نام نہاد تاریخ دانوں کا منہ بند کر دینے کے لئے بہت ہیں جو گاہے گاہے تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ کی جدوجہد کے پیچھے برطانوی حکومت کا ہاتھ تلاش کرتے رہتے ہیں لیکن سلام ہے فیض احمد فیض کی فکری دیانت کو جنہوں نے انجمن ترقی پسند مصنّفین کے حکم پر اقبالؒ کی مذمت سے انکار کر دیا تھا۔
انجمن ترقی پسند مصنّفین روس نواز ادیبوں کی انجمن تھی لیکن فیض نے روس کو خوش کرنے کیلئے اقبالؒ کی مذمت سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں انہوں نے اقبالؒ کے فارسی کلام ’’پیام مشرق‘‘ کا اُردو ترجمہ کیا۔ اب بہت سے ترقی پسند اپنے آپ کو صرف لبرل کہتے ہیں۔ ہر سال فیض ڈے مناتے ہیں لیکن فیض ڈے پر فیض کی اقبالؒ سے محبت کا ذکر نہیں کرتے۔ انہی لبرل دانشوروں میں سے کچھ صاحبان آج کل ہمیں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فائدے گنوا رہے ہیں۔ جب اُنہیں اقبال کا یہ شعر یاد دلایا جائے کہ
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
جواب آتا ہے کہ اقبالؒ ایک بنیاد پرست تھا۔ ان دانشوروں کے نزدیک پہلے اقبالؒ سرکار برطانیہ کے زیر اثر تھے آج کل اقبالؒ بنیاد پرست ہیں۔ یہی معاملہ قائداعظمؒ کے ساتھ ہے۔
اُن کے بارے میں خودساختہ حقائق کے نام پر کہا گیا کہ انہوں نے 23مارچ 1940ء کی قرارداد انگریزوں کے کہنے پر منظور کرائی۔ یہ الزام لگانے والے بھول گئے کہ 23مارچ 1940ء کو صرف ایک علیحدہ وطن کی قرارداد منظور نہیں ہوئی بلکہ ایک اور قرارداد فلسطینیوں کے حق میں بھی تھی۔ 30جولائی 1946ء کو قائداعظمؒ نے اپنے بیان میں یہودیوں کے بجائے صہیونیوں پر تنقید کی اور کہا کہ یہ امریکہ کی ناک کو پکڑ کر جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں لہٰذا امریکہ اور برطانیہ فلسطین سے نکل جائیں اور عربوں اور یہودیوں کو لڑبھڑ کر مسئلہ حل کرنے دیں۔
31جولائی 1946ء کے ڈان میں مذکورہ بیان تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد دستور ساز اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی اور 13ستمبر 1947ء کو قائداعظمؒ نے مفتی امین الحسینی کو خط میں یقین دلایا کہ ہم آپ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ قائداعظمؒ کے خیالات کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا اور اب وزیراعظم عمران خان نے بھی کھل کر کہہ دیا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی وہی رہے گی جو قائداعظمؒ کی تھی۔
عمران خان کیلئے یہ الفاظ کہنا آسان نہیں تھا وہ بھی اپنے دفتر خارجہ کی طرح ایک گول مول بیان دے سکتے تھے۔ دفتر خارجہ اور عمران خان کے موقف میں واضح فرق موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان پر دبائو ہے۔
پاکستان کو چاہئے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دبائو ڈالنے والوں کو بتائے کہ ہم نے بڑی مشکل سے انتہا پسندی پر قابو پایا ہے اگر پاکستان پر کوئی ایسا فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو ردعمل میں انتہاپسندی پھیلے گی اس لئے ہمیں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے راستے پر رہنے دو۔
تحریر: حامد میر