(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) حالیہ دنوں عراق میں احتجاجی مظاہروں کا دوسرا دور شروع ہو اہے اس سے قبل شروع ہونے والا احتجاجی مظاہروں کا دور بیس اکتوبر سے ایک ہفتہ قبل اس لئے روک دیا گیا تھا کیوں کہ ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفی ﷺ کے نواسہ جناب امام حسین کے چہلم کے ایام کی وجہ سے دنیا بھر سے کروڑوں افراد کی کربلا و نجف جیسے مقدس شہروں میں آمد و رفت تھی۔
البتہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ چہلم امام حسین کے بعد 25اکتوبر سے ان مظاہروں کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ مظاہروں کے پہلے دور میں بھی درجنوں افراد مارے گئے تھے جو کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور ہینڈ گرنیڈ جیسے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔
بہر حال حالیہ دنوں میں عراق میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔سوشل میڈیا پر عراق سے موصول ہونے والی سیکڑوں ویڈیوز اور تصاویر تک سب کی رسائی ہے۔ہم اس مقالہ میں کوشش کریں گے عراق میں ہونے والے ان مظاہروں کے پس پردہ عوامل کو آشکار کریں۔
یہ مظاہرے کیوں شروع ہوئے اور ان کی قیادت کون کر رہا ہے؟ اس سوال کا آسان سا جواب یہی ہے کہ مہنگائی، کرپشن جیسے دیرینہ مسائل ان مظاہروں کی بنیاد بنے ہیں جبکہ ان مظاہروں کی قیادت کے عنوان سے تاحال کوئی بھی سیاسی قیادت کھل کر سامنے نہیں آ رہی ہے کہ جو علی الاعلان یہ کہہ سکے کہ ان مظاہروں کی قیادت کر رہی ہے۔جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام جمع ہوئے ہیں اور حکمران طبقہ کی کرپشن اور بد عنوانیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
بظاہر اگر ان باتو ں کو مان لیا جائے تو یقینا کوئی بھی سمجھدار انسان یا سیاسی سوج بوجھ رکھنے والا انسان ان باتوں کو رد نہیں کر سکتا لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے جو کہ پردے کے پیچھے ہے۔
حقیقت میں مظاہرین جو بغیر کسی قیادت کے بغیر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور مسلسل ایسی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں کہ جس میں سرکاری عہدیداروں کو مارا پیٹا جا رہاہے۔حتیٰ یہاں تک کہ کربلا میں ایک رضا کار کو ایمبولینس سے نکال کر قتل کر دیا گیا، جبکہ ایمبولینس کے دیگر عملہ کو بھی اس کے ساتھ ساتھ قتل کیا گیا یہ مناظر آج سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔اسی طرح ایک اور منظر میں بغداد کی گلیوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس وین کو روک کر پولیس والوں کو اتار کر انہیں چند شر پسند عناصر گرفتار کر کے لے جا رہے ہیں جبکہ ان پر بہیمانہ تشدد بھی کیا جا رہاہے۔ایسی کئی ایک ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین کے اندر چھپے ہوئے شرپسند عناصر ہینڈ گرنیڈ جیسے ہتھیار بھی استعمال کر رہے ہیں۔بصرہ میں کچھ ایسے مظاہرین کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو مظاہرین کے اندر رہتے ہوئے مظاہرین اور پولیس والوں پر گولیاں چلا رہے تھے اور انہیں خفیہ انداز میں قتل کر رہے تھے۔
بہر حال ان مظاہروں کے احوا سے ہٹ کر جو اصل مدعا ہے وہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ان مظاہرین کے مطالبات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جن میں مہنگائی اور کرپشن سمیت حکمرانوں کی بد عنوانی جیسے الزامات کہیں دور دور بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔اب ان مطالبات میں ایران کے خلاف نعرے بازی، داعش کے خلاف جدوجہد اور جنگ کرنے والی رضا کار فورس کے خلاف نعرے، عراق کے بزرگ علمائے کرام کی تصاویر کو نذر آتش کرنے سمیت ان کے خلاف نعرے لگانا سمیت ایسے نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ جو خود ان احتجاجی مظاہروں کی جڑ اور بنیاد کا پتہ دیتے ہیں۔
عرا ق سے امریکی افواج کا انخلاء او پھر یہاں داعش کی حکومت قائم ہونے سے داعش کے خاتمہ کے بعد تک عراق اور اس کا نظامکافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ایک عرا ق جو امریکی سرکار کا محتاج تھا آج امریکی فوج کو عراق میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔دوسری طرف امریکہ چاہتا ہے کہ عراق کے ایران سمیت چین اور روس اور دیگر ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی ضرب لگائی جائے،حالیہ مظاہرو ں میں لگائے جانے والے نعروں میں اس سازش کی کھلی تصویر نظر آ رہی ہے۔امریکی صدر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے عراق اور شام پر تسلط حاصل کرنے کے لئے سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں اب ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ ان سات ٹریلین ڈالرز کی واپسی وہ عراق کے تیل کو دنیا بھر میں فروخت کر کے حاصل کریں گے۔یعنی مقاصد صاف نظر آرہے ہیں کہ عرا ق کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔جیسا کہ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ یورپ میں کسی ایک دکاندار سے ایک سو ٖڈالر نکلوانے سے کہی زیادہ آسان سعودی عرب کے حکمرانوں سے ملین ڈالرز نکلوانا ہے۔یہی فارمولا وہ عراق میں لا گو کرنا چاہتے ہیں لیکن عراق کی حکومت اور اکثریت اس فارمولہ کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔امریکی سرکار کا عراق میں حال یہ ہے کہ اب صرف ساڑھے چھ ہزار امریکی فوجی سفارتخانوں اور دیگر شخصیات کی سیکیورٹی کے نام پر عرا ق میں موجود ہیں جن کے بارے میں بھی عراق نئی منتخب حکومت کہہ چکی ہے کہ ان کی سیکیورٹی کی ذمہ دار نہیں ہے۔
دراصل امریکہ عراق و شام اور لبنان و فلسطین سمیت پورے غرب ایشیاء میں تنہا اور بد ترین شکست خوردہ ہو چکا ہے اور اس شکست کا اعتراف اکشر اوقات ٹرمپ کی تقاریر میں بھی سننے کو ملتا ہے۔عراق کو غیر مستحکم کرنے اور سیاسی بھونچال پیدا کرنے کے لئے امریکی و صہیونی اسکیم نے کرپشن اور بد عنوانی کو آلہ کار بناتے ہوئے چند شر پسند گروہوں کو سوشل میڈیا کے ذریعہ سڑکوں پر نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے تاہم عراق حکومت اور اس کے ادارے مسلسل اس فتنہ سے نمٹنے کی مکمل کوشش کر رہے ہیں۔
راقم نے ان احتجاجی مظاہروں کو شرپسند عناصر اس لئے کہا ہے کہ اگر یہ مظاہرے عوامی ہوتے تو پھر ان کے نعرے بھی عوامی ہوتے نہ کہ ایسے نعرے جو امریکہ اور اسرائیل کی حمایت میں لگائے جا رہے ہوں۔اگر واقعی یہ مظاہرے عراق کے عوام کے ہیں تو پھر ان کو ملک کی سلامتی اور سرحدوں کی خلاف ورزی جیسے مسائل پر نعرے لگانے چاہئیں کہ جہاں متعدد مرتبہ صہیونی اسرائیل نے ڈرون حملوں میں عراقی افراد کو قتل کیا ہے۔سرحدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ مظاہروں کی خفیہ قیادت اور مظاہرین نے تا حال کسی قسم کا کوئی ایسا پلے کارڈ نہیں اٹھا یا ہے کہ جس میں داعش کے خلاف جنگ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہویا عراق کی سیکیورٹی کے خلاف صہیونی سرگرمیوں کی مذمت کی گئی ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ عرا ق کا احتجاجی مظاہروں کا پہلا دور ہو یا اب چلنے والا دوسرا دور، دونوں ادوار میں جو ایک بات سوشل میڈیا پر واضح طور پر نظر آ رہی ہے وہ امریکہ و اسرائیل سمیت یورپی ممالک اور بالخصوص خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب سے حمایت کی جا رہی ہے جو واضح طور پر اس بات کی روشن دلیل ہے کہ عراق میں موجود چند ایسے عناصر جو امریکہ، اسرائیل اور خطے کی عرب ریاستوں کے اشاروں پر عراق کے مستقبل کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور امریکی ایجنڈا کی تکمیل کی خاطر عراق کی سڑکوں پر معصوم او ر بے گناہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل و غارت کر رہے ہیں۔ایسے کسی بھی احتجاج کو جمہوری احتجاج نہیں کہا جاتا لہذا ہر عقل مند جو عرا ق کی سیاسی صورتحال سے آشنا ہو گا وہ یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ عراق میں جاری مظاہرے در اصل امریکی خلفشار ہیں جس کا مقصد امریکی ناپاک عزائم کی تکمیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔امریکہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے عرا ق میں نئے انداز سے وارد ہو رہاہے تا کہ اپنی شکست کو چھپا سکے اور اس کام کے لئے امریکی حکومت پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنے بے گناہوں کا خون بہاناپڑے گا۔کیونکہ امریکہ پہلے ہی نائن الیون کے بعد افغانستان او ر عراق میں لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا چکا ہے۔