جولائی 1933: حیسیم آرلوسوروف کا قتل،
17 جولائی 1937: فلسطین میں تین عرب باشندوں کا قتل،
25 نومبر 1940: پیٹریا بحری جہاز میں دھماکہ جس میں فلسطین آنے والے یہودی مہاجر سوار تھے۔ 140 مہاجر ہلاک ہو گئے،
24 فروری 1942: استقروما بحری جہاز میں دھماکہ جس میں 769 یہودی مہاجر سوار تھے۔ سب اس حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ جیوش ایجنسی نے اسکو یہودی مہاجرین کی طرف سے اعتراض کے طور پر خودکشی کا واقعہ قرار دیا،
20 فروری 1947: حیفا کے نزدیک عراق کی آئل پائپ لائن میں دھماکہ۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں موشہ دایان بھی شریک تھا،
19 دسمبر 1947: صفر کے نزدیک ایک عرب دیہات میں دو گھروں کو مسمار کرنا جس میں 10 افراد جن میں سے 5 بچے تھے جاں بحق ہو گئے،
20 دسمبر 1947: قزازہ کے دیہات پر حملہ اور گھروں کو دھماکے سے اڑا دینا۔
:2۔ بیتار گروپ
اس گروپ کا نام اپنے بانی برٹ یوسف ٹرومیلڈر کے نام سے لیا گیا ہے۔ یہ شخص 1920 میں جلیلیہ کیمپ کے فلسطینی مہاجرین کے ساتھ ایک لڑائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس گروپ میں شامل شدت پسند یہودی جوان "براون شرٹ گروپ” کے نام سے مشہور تھے۔ اس گروپ کے افراد ھاگانا آرگنائزیشن سے نکل کر آئے تھے۔ جابوٹینسکی نے بھی اس گروپ کی سربراہی کی تھی۔
:3۔ ارگون زیائی لیومی گروپ
یہ شدت پسند گروہ 1930 کی دہائی کے اواسط میں ھاگانا سے الگ ہونے والے افراد نے تشکیل دیا اور 1940 کی دہائی میں مناخیم بیگن کی سرکردگی میں سرگرم عمل رہا۔ مناخیم بگن نے اپنی ڈائری میں اس گروپ کی تشکیل، تنظِم اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی مکمل تفصیل لکھی ہے۔ اس نے اس گروہ کی تشکیل کے بارے میں لکھا ہے: "ہم نے ایک فوج تشکیل دی اور اسکا نام ارگون رکھا اور اس میں مختلف سیکشنز کو تشکیل دیا جن میں کمانڈوز کا سیکشن، انقلابی سیکشن اور پروپیگنڈہ سیکشن شامل تھے"۔ اسکے بعد وہ اس گروپ کے تنظیمی ڈھانچے اور اسکے طرز کار کی وضاحت کرتا ہے۔ وہ ارگون کے اندرونی سیسٹم کے بارے میں کہتا ہے: "ہمارا اندرونی سیسٹم دو بنیادوں پر استوار تھا؛ پہلی اطاعت اور دوسری مخفی کاری۔ ارگون اپنے اس اندرونی سیسٹم اور کامیاب دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے بہت جلد ایک خوفناک صیہونیستی دہشت گرد تنظیم میں تبدیل ہو گئی حتی کہ بیگن یہ اعتراف کرتا ہے کہ: "ہر جگہ اس تنظیم کے نام کا خوف اور دہشت طاری تھی۔ ایسی دہشت جو صرف کہانیوں میں ملتی ہے۔ اس رعب و وحشت نے ہماری کامیابیوں میں بہت اہم کردار ادا کیا جو اسکے بغیر ممکن نہ تھیں"۔ ارگون کی کامیابیاں باعث بنیں کہ 1940ء کی دہائی میں یہود ایجنسی ارگون کے رہنماوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرے جسکے مطابق دونوں کے درمیان دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دینے میں تعاون اور ہمکاری برقرار ہو گیا۔
:ارگون گروپ کے دہشت گردانہ اقدامات
:اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی لسٹ درج ذیل ہے
2 جولائی 1939ء : بیت المقدس کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکہ،
12 اور 26 فروری 1944ء : بیت المقدس کی فروٹ مارکیٹ میں بم دھماکہ،
25 فروری 1944ء : دو برطانوی پولیس اہلکاروں کا قتل،
8 اکتوبر 1944ء : برطانوی ہائی کمیشن کے قتل کی کوشش اور سر ہارولڈ مک میچل کا قتل،
27 ستمبر 1944ء: چار پولیس چوکیوں پر حملہ اور کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کا قتل،
مارچ اور مئی 1945ء: مختلف جگہوں پر بم دھماکے اور کئی پولیس اہلکاروں اور عام افراد کا قتل،
13 ستمبر 1946ء: تل ابیب اور حیفا میں عثمانی بینکوں پر حملہ،
1 اکتوبر 1946: روم میں برطانوی سفارتخانے میں بم دھماکہ،
13 مارچ 1947ء : بیت المقدس میں برطانوی فوجی مرکز میں بم دھماکہ،
19 جولائی 1947ء : حیفا میں ایک برطانوی پولیس اہلکار کا قتل اور دوسرے کو زخمی کرنا،
16 دسمبر 1947ء : ڈیلی ٹائمز کو بھیجے گئے ایک خط کے ذریعے برطانوی عہدے داروں کو دھمکی،
1 مارچ 1948ء : فلسطین کو تقسیم کرنے کے اقوام متحدہ کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے 254 فلسطینی دیہاتیوں کا قتل عام۔
:4۔ اشٹرن گروپ
یہ گروپ 1930 کے عشرے کے آخر میں ارگون سے الگ ہوا۔ اس گروپ کے سربراہ کا نام ابراہم اشٹرن تھا جو برطانیہ کا شدید مخالف اور نسل پرستانہ، نازی اور فاشیستی سوچ کا مالک تھا۔ اشٹرن 1939ء میں جرمنی کے خلاف برطانیہ کی مدد کیلئے صیہونیستوں کے بھیجے جانے پر احتجاج کے طور پر ارگون سے علیحدہ ہو گیا اور "اشٹرن” کے نام سے اپنے نئے دہشت گرد گروپ کی بنیاد ڈالی۔ وہ موسولینی کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے گروپ میں شامل جنگجووں کو برطانیہ اور عربوں کے خلاف فلسطین میں منظم کیا۔ اشٹرن نے اپنے نسل پرستانہ عقائد اور نازیزم اور فاشیزم کے ساتھ دلبستگی کی بدولت یہ عہد کیا تھا کہ فلسطین میں صیہونیستی حکومت کی تشکیل
میں اٹلی اور جرمنی کی حمایت کے بدلے یہ حکومت جرمنی کے ساتھ وفادار رہے گی اور فلسطین میں یہودیوں کے مقدس مقامات واٹیکن کے ساتھ وابستہ رہیں گے۔ یہود ایجنسی کے مقابلے میں اشٹرن کا موقف بظاہر ایک تضاد تھا لیکن درحقیقت عالمی صیہونیزم کے اہداف کے مطابق تھا۔ اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیاں اس قدر وسیع تھیں کہ برطانیہ کے جاسوسی ادارے M15 کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے: "اس ادارے کی طرف سے انجام دی گئی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ دو گروپ اشٹرن اور ارگون تقریبا 100 دہشت گردانہ کاروائیوں میں شریک رہے ہیں، جسکی بنیاد پر انکے کچھ ممبران کو سزائے موت جبکہ دوسروں کو عمر قید سنائی گئی ہے"۔
:اشٹرن گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیاں
یہ گروہ اپنی نازی اور فاشیسٹی سوچ کی وجہ سے اپنے مقاصد کو دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ تمام دہشت گردانہ اقدامات سیاسی صیہونیزم کے اہداف کے مطابق تھیں۔ ذیل میں کچھ دہشت گردانہ کاروائیوں کی لسٹ دی جا رہی ہے:
جنوری 1942ء: 2 برطانوی فوجی افسروں کی ملاقات کی جگہ پر بم دھماکہ،
22 اپریل 1942ء : ایک پولیس افسر اور اسکے ساتھیوں پر ناکام قاتلانہ حملہ،
6 نومبر 1944ء : جنگ کے دوران برطانوی سفیر لارڈ موین کا قتل،
25 اپریل 1946ء : فوجی بیرکس میں 9 برطانوی فوجیوں کا قتل،
4 جنوری 1948ء : یافا کے ایک چوک میں بم دھماکہ جو 30 عام شہریوں کے قتل اور 98 کے زخمی ہونے کا باعث بنا،
3 مارچ 1948ء : حیفا میں ایک فوجی گاڑی کا سامنے بم دھماکہ،
31 مارچ 1948ء : قاہرہ سے حیفا جانے والی ٹرین کی پٹڑی کو مائن سے اڑانا جس کی وجہ سے 40 عرب باشندے قتل اور 60 زخمی ہو گئے،
17 ستمبر 1948ء : مسئلہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایلچی کنٹ فولک برناڈٹ اور اسکے ایک ساتھی کا قتل۔
:5۔ لہی (Lehi) دہشت گرد گروپ
برطانیہ کی طرف سے دباو کے نتیجے میں ارگون نے 1939ء سے برطانیہ کے خلاف اپنی دہشت گرد کاروائیاں بند کر دیں اور اسکے کچھ ممبران برطانوی فوج میں شامل ہو گئے۔ 1948ء میں سویڈن نژاد اقوام متحدہ کے ایلچی برناڈٹ کے قتل کے بعد اشٹرن کے اکثر اراکین کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ ان دونوں کے سب سے زیادہ فعال اراکین جو زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے نے ایک نیا دہشت گرد گروپ تشکیل دیا جسکا نام لہی رکھا گیا۔ یہ گروپ ممبران کی تعداد کے حوالے سے سب سے چھوٹا گروپ تھا لیکن سب سے زیادہ فعال اور سرگرم تھا۔ اس گروپ نے اشٹرن اور ارگون کے برخلاف روس کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی قائم کی اور آئرلینڈ کے مزاحمتی گروپ آئی آر اے کے طرز پر کاروائیاں شروع کر دیں۔ اشٹرن کا سب سے زیادہ سنگدل اور بے رحم ممبر اسحاق شامیر بھی اس گروپ میں شامل ہو گیا۔ شامیر اس گروپ میں مائیکل آئرلینڈی کے نام سے مشہور تھا۔ اسرائیل کے امور کے ماہر شلنڈر اس گروپ کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے بارے میں لکھتا ہے: "یہ گروپ سب سے چھوٹا دہشت گرد گروہ تھا لیکن 1942ء سے 1948ء کے درمیان ہونے والے قاتلانہ حملوں میں سے 71 فیصد اس گروہ نے انجام دیئے۔ اس گروپ کا پہلا لیڈر 1942ء میں تل ابیب میں پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا"۔ اس گروپ کی سب سے بڑی دہشت گردانہ کاروائی 1944ء میں مصر میں لارڈ موین، برطانوی فوجی کمانڈر کا قتل تھی۔
:6۔ پالماخ گروپ
یہ گروہ ھاگانہ دہشت گرد گروپ کی ایک شاخ تھی۔ 1941ء میں جب ھاگانہ کی موبائل ایکشن ٹیم تشکیل دی گئی تو یہ گروپ ھاگانہ کی کمانڈ میں جداگانہ طور پر تحریک مزاحمت کی آڑ میں قاتلانہ حملے انجام دیتا تھا۔ اس گروپ کی کچھ دہشت گردانہ کاروائیاں درج ذیل ہیں:
14 اور 15 فروری 1938ء : پالماخ کی تھرڈ بٹالین نے سعسع کے گاوں پر حملہ کیا اور 20 گھروں کو بم سے اڑا دیا جسکے نتیجے میں 60 عرب باشندے قتل ہو گئے جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی،
30 اور 31 دسمبر 1947ء : پالماخ نے بلد الشیخ کے گاوں پر حملہ کیا اور 60 سے زیادہ عرب باشندوں کو انکے گھروں میں قتل کر ڈالا،
12 اپریل 1948ء : قلوینا کے گاوں پر حملہ کر کے 14 افراد کو قتل کر ڈالا،
12 جولائی 1948ء : لد کے شہر میں صیہونیستوں کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرے پر حملہ کر کے 250 افراد کو قتل کر دیا۔
:7۔ تحریک مزاحمت
دوسری جنگ عظیم اور جرمنی اور اٹلی کے خلاف نبرد آزمائی کی وجہ سے برطانیہ کی کمزوری نے فلسطین میں برطانوی استعمار کے زیر اثر حکومت پر دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے کاری ضربیں لگانے کا زمینہ فراہم کر دیا تھا۔ اس وقت یہود ایجنسی اور صیہونیزم سیاسی نے کئی حوالے سے فعالیت کا آغاز کر دیا۔ عالمی صیہونیزم کا اپنے اہداف کے حصول کی خاطر امریکا کی طرف جھکاو ایسے وقت میں تھا جب سوشلسٹ صیہونیزم نے امپریالیسٹ امریکہ کی پناہ حاصل کی۔ اسکے علاوہ شدت پسند ترین صیہونیستی دہشت گرد گروہوں کی مدد سے تحریک مزاحمت کا قیام فلسطین میں برطانیہ کے مفادات کو دھچکا پہنچانے، برطانوی فوجیوں کو وہاں سے نکالنے اور انکی جگہ صیہونیستی گروہوں کو بٹھانے کی غرض سے عمل میں آیا۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے 1945ء میں ھاگانہ، اشٹرن اور ارگون کا اتحاد تحریک مزاحمت کی شکل میں وجود میں آیا۔ یہود ایجنسی جو ھاگانا کو چلا رہی تھی اور ارگون میں ایک خفیہ معاہدہ طے پایا۔ اس تحریک میں ارگون اور مناخیم بیگن دہشت گردانہ کاروائیوں میں مرکزی کردار ادا کرتے تھے۔
بگین اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے: "ہمارا پروگرام تین بنیادوں پر استوار تھا۔ ملک میں حکومت کی طرف سے اختیار کئے جانے والے طریقوں کا بغور مطالعہ، بین الاقوامی حالات کا جائزہ اور دوسری جنگ جہانی کے خاتمے پر برطانیہ کے اندرونی حالات کا مکمل جائزہ۔ ہم اپنے ہدف تک پہنچنے کیلئے اس نتیجے پر پہنچے کہ برطانیہ کا رعب و دبدبہ ختم کیا جائے تاکہ فلسطین میں اسکی حکومت زوال پذیر ہو سکے"۔
:تحریک مزاحمت کی کاروائیاں
مناخیم بیگن کی ڈائری کے مطابق تحریک مزاحمت کی کچھ مشترکہ دہشت گردانہ کاروائیاں درج ذیل ہیں:
۱۔ حیفا میں دو اور یافا میں ایک کشتی کو غرق کرنا جنکا کام مہاجرین کا پیچھا کرنا تھا،
۲۔ ریلوے ٹریکس کو 186 مختلف مقامات پر 500 دھماکوں کے ذریعے تباہ کرنا جسکے نتیجے میں شام سے غزہ، یافا سے سمخ اور لد سے قدس کے درمیان تمام ٹرینیں بند ہو گئیں،
۳۔ لد کے ریلوے سٹیشن پر حملہ اور جانی و مالی نقصان پہنچانا،
۴۔ حیفا میں آئل ریفائنری پر حملہ،
۵۔ فلسطین میں برطانوی مستعمرہ حکومت کے ہوائی اڈوں پر حملے اور جنوب فلسطین میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری،
۶۔ جولائی 1946ء ملک داود ہوٹل کو منہدم کرنا،
۷۔ اپنے دہشت گرد ساتھیوں کو آزاد کروانے کیلئے اشٹرن اور ارگون کا قدس جیل پر حملہ،
۸۔ قدس اور یافا میں CID کے مراکز پر دہشت گردانہ حملہ۔
یہودی ایجنسی ان تمام دہشت گردانہ کاروائیوں کی مکمل نگرانی کر رہی تھی اور یہ تمام کاروائیاں اسکی مرضی سے انجام پائی تھیں۔ اشٹرن، ارگون اور پالماخ گروپس ھاگانا کی جانب سے ان دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور اجراء کرتے تھے۔
:نتیجہ گیری
انیسویں صدی کے آخر میں سیاسی صیہونیزم کی پیدائش اور اپنے اصلی مقصد کے حصول کیلئے برطانوی حکومت میں اسکے اثر و رسوخ نے برطانیہ کے سیاسی فیصلوں کے ساتھ مل کر اس استعماری سوچ کے حامل ملک کیلئے یہ زمینہ فراہم کیا کہ وہ 1916ء میں سایکس۔پیکو معاہدے کے انعقاد اور 1920ء میں بالفور اعلان کے جاری کرنے کے بعد فلسطین کی سرپرستی اپنے ہاتھ میں لے لے اور اس طرح سے بظاہر قانونی طور پر پورے یورپ اور دنیا سے صیہونیستوں کی برطانیہ کے زیر سایہ فلسطین کی طرف مہاجرت کا زمینہ فراہم کرے۔ اسی طرح یہودی ایجنسی کو دنیا کے یہودیوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر قبول کر لے اور اس ایجنسی کے طرفدار مسلح صیہونیستوں کو فلسطین کے سیکورٹی اداروں میں بھرتی کرے اور اس طرح سے 1920ء کی دہائی میں قدس پر انکے قبضے کا راستہ ہموار کر دے۔ 1930ء کی دہائی کے بعد جب برطانیہ نے یہودیوں کی بے تحاشہ مہاجرت اور صہیونیستی دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں سے خطرے کا احساس کیا تو انہیں محدود کرنے کی کوشش کی۔ یہ شدت پسند گروہ جو فلسطین میں یہود ایجنسی کے زیر سایہ سرگرم تھے، برطانیہ کے اس منصوبے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان گروہوں نے برطانیہ کے مفادات کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا اور مقامی افراد کی قتل و غارت کے علاوہ فلسطین کے اندر اور باہر برطانوی جاہ و جلال کے مظہر مراکز پر بھی حملے شروع کر دیئے۔ دوسری عالمی جنگ نے برطانیہ کی بین الاقوامی طاقت کو کم کر دیا۔ اسی وجہ سے برطانیہ اپنی کالونیوں کو برقرار رکھنے پر قادر نہ تھا۔ لہذا فلسطین کی سرپرستی اقوام متحدہ کے سپرد کر دی گئی۔ یہود ایجنسی اور عالمی صیہونیزم نے اپنی پالیسیوں میں اسٹریٹجک تبدیلی کی جسکے مقدمات 1930ء کی دہائی میں فراہم کئے گئے تھے اور امریکا کا رخ کیا۔ امریکہ جو برطانیہ کے زوال کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کی کوشش میں مصروف تھا نے اقوام متحدہ کی مدد سے صیہونیستوں کو اپنی دیرینہ آرزو تک پہنچا دیا۔ اس طرح غیر فلسطینی صیہونیست مہاجروں نے فلسطینی حکومت کو غصب کر لیا اور قدس کی قابض رژیم کی بنیاد ڈال کر فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ دہشت گرد صہیونیست گروہوں نے 1930ء سے لے کر رژیم صیہونیستی کی تشکیل تک عالمی صیہونیزم اور برطانیہ کی سیاست اور پالیسیوں پر انتہائی گہرا اثر ڈالا جن میں سے کچھ موارد کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:۔
۱۔ صہیونیزم کو ایک نسل پرستانہ اور یہودیوں سے مخصوص ملک کے حصول کے راستے پر لگا دیا جو اس جمہوری حکومت کے نظریے سے یکسر مختلف تھا جو ہرٹزل نے پیش کیا تھا۔
۲۔ یہودیوں کے قومی وطن پر مبنی برطانیہ کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور برطانیہ کو یہ یقین دلوایا کہ وہ فلسطین کی دیکھ بھال پر قادر نہیں ہے جو فلسطین سے برطانیہ کے نکلنے میں انتہائی موثر ثابت ہوا۔
۳۔ دہشت گرد گروہوں کی قتل عام اور بے رحمانہ قتل و غارت کے ذریعے رعب و وحشت کی فضا قائم کرنے میں کامیابی اور برطانیہ کا ان دہشت گردانہ کاروائیوں کا موثر انداز میں مقابلہ نہ کرنا اور عرب باشندوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا فلسطین پر یہودیوں کے قبضے اور عرب باشندوں کے جلاوطن ہونے پر منتج ہوا۔
۴۔ ان دہشت گردانہ اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہود ی ایجنسی اور عالمی صہیونیزم یہ سمجھ گئے کہ اگر وہ باقی رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی دہشت گردانہ کاروائیاں جاری رکھنا ہوں گی۔
—