شہید ڈاکٹر فتحی شقاقی
قسط۔8گذشتہ سے پیوستہ
تحریک جہاد اسلامی فلسطین کی پیدائش
روزہ جنگ سے کیا ملا اور کیا کھویا؟!
اس میں شک نہیں کہ جون 1967ء میں عالم عرب اور اسرائیل کی جنگ کے نتیجہ کو اسلامی رحجانات کی فضاء کو فراہم کرنے کا ایک بڑا اور بہتر ذریعہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے عالم عرب اور عالم اسلام میں سیاسی رحجانات کو وسعت مل گئی۔شہید شقاقی ؒ کی نظر میں اس پانچ روزہ جنگ نے عالم عرب پر حاکم تمام قومی اور لائیک حکومتوں کے فکری اور قومی منصوبوں اور رحجانات پر سوالیہ نشان لگا دیا نیز صیہونی حکومت اور امریکہ کے مقابلے میں ان کی شکست کو ثابت کیا۔
دوسری جانب اس شکست نے عالم عرب میں دینی رحجان رکھنے والے افراد کے کاموں کو بھی مشکوک بنا دیا ۔مثال کے طور پر انجمن اخوان المسلمین جو 1928ء میں تشکیل پائی لیکن نہ حکومت کو ہاتھ میں لے سکی اور نہ ہی اس جنگ کی ناکامی کو روک سکی۔عربی معاشروں میں متحرک اور انقلابی اسلام کی وہ قدرت موجود تھی جس کے ذریعہ آسانی سے غیر اسلامی افکار کے ساھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی رحجانات بیسوی صدی کے آغاز سے ہی کافی وسائل ہاتھ میں نہ ہونے کے باوجود بھی،لائیک اور قومی رحجانوں کو نہ روک سکی۔
تحریک جہاد اسلامی فلسطین کی نگاہ میں اس جنگ میں عربی حکومتوں کی شکست عام مسلمانوں کے لئے نیز عالم عرب پر حاکم سیاسی نظاموں کے منصوبوں کے لئے مصیبت آور تھی۔
:اسلامی روایتی پارٹیوں میں زلزلہ آیا
جون 1967ء کی جنگ کے بعد اسلامی سنتی انجمنوں کے اندر رفتہ رفتہ عام افراد سے لے کر بعض بڑی ممتاز شخصیات تک میں گزشتہ فعالیتوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت نیز فکری نقطہ نظر کے حوالے سے بھی اختلافات پیدا ہونے لگے۔اس نے عالم عرب کے اسلامی روایتی گروہوں میں ایسے لرزے کی گھنٹی بجائی کہ بہت سے ایسے سوالات جن کے ابھی جواب پیش نہیں کئے گئے تھے پھر سے سر اٹھانے لگے۔اسلامی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی کیفیت پر نیز نئے راہ حل اور پروگراموں پر ،اسی طرح نئے فکری نمونوں کی ضرورت پر دس سال سے زیادہ عرصہ تک جدل و بحث ہوتی رہی۔اسی وقفہ کے دوران ایرا ن میں اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا۔یہ انقلاب عالم عرب میں ایک مناسب آئیڈیل پیش کر سکا جس نے ہمارے لئے مقابلے،اقتدار اور کامیابی کا راستہ روشن کیا۔اس سب کے باوجود اسلامی انقلاب کی سرفرازی نے تحریک جہاد اسلامی فلسطین کی پیدائش میں اچھا خاصہ مناسب اثر ڈالا۔
اس تحریک کی اساس سے قبل اسلامی روایتی انجمنوں میں بھی بعض فکری رحجانات ظاہر ہوتے رہتے تھے۔ ان سب انجمنوں کے سر پر پریشانی اور اضطراب کے بادلوں کا سایہ منڈلا رہا تھا اور بہت سے تعلیم یافتہ افراد اپنی گزشتہ کارکردگیوں پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔عالم عرب میں نئے فکری رحجانات کے تدریجی ظہور سے تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے بانی خود یونیورسٹیوں کے اندر ہی جمع اور منتخب ہوئے۔اسی طرح 1970ء کی دہائی میں اخوان المسلمون کی تنظیم سے دوسرے بہت سے گروہ جدا ہو گئے اور اپنی مستقل انجمن تشکیل دے دی۔
:اسرائیل کی نابودی کے لئے جنگ کے علاوی چارہ نہیں
مقبوضہ فلسطین میں سب سے پہلے جس شخص نے قابضوں کے ساتھ جنگ اور مسلح جدوجہد کی آواز بلند کی وہ جناب یعقوب قرش ہیں۔تحریک آزادی فلسطین فتح کے ساتھ آپ کے نزدیکی روابط تھے۔آپ نے سنہ 1977ء میں اپنی جہادی سرگرمیاں شروع کیں اور آپ سنہ 1979ء کے اواخر میں صیہونیوں کے ہاتھوں گرفتار اور اردن جلا وطن کئے گئے۔انقلاب اسلامی کی سرفرازی کے ساتھ ہی دوسرے اسلامی رحجان والے افراد سامنے آ گئے،جن میں غزہ کی پٹی سے جناب شیخ محمد ابو طیر،جناب شیخ اسعد بیوض التمیمی،نیز 1948ء سے مقبوضہ علاقوں سے جناب شیخ عبد اللہ نمر درویش جیسے افراد قابل ذکر ہیں۔جنہوں نے اسرائیل کی نابودی کا تقاضا کیا لیکن ان میں سے کسی کو بھی شہید ڈاکٹر شقاقی ؒ کی طرح عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی اور نہ ہی ان کی طرح اپنے موقف پر ثابت قدم رہ سکے۔نمونے کے طور پر جناب شیخ نمر درویش نے تین سال کی گرفتاری کے بعد اپنے انقلابی افکار اور پروگراموں سے ہاتھ اٹھا لیااور اس کے بجائے دینی تعلیم و تبلیغ اور دینی ثقافت کی ترویج میں مشغول ہو گئے۔
1967ء سے 1970ء کے سالوں میں فلسطین کے اسلامی سنتی انجمنوں کے حامیوں کے ذہنوں میں یہ سوال عام پیدا ہو گیا تھا کہ مقبوضہ فلسطین اور غاصبوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کیفیت نیز صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ لڑنے کے بہ نسبت ،ان کا موقف کیا ہے؟بعض اسلامی رویتی قائدوں نے ان سوالوں کے جواب یوں اظہار نظر کیا:’’موجودہ حالت میں ہم تعلیم حاصل کرنے اور آمادگی پیدا کرنے میں مشغول ہیں کیونکہ ابھی جہاد کی قیادت لائیک طاقتوں کے ہاتھوں میں ہے لہذٰا ان کے لئے ابھی مسلح جنگ کا امکان نہیں ہے‘‘۔
شہید ڈاکٹر فتححی شقاقی ؒ فرماتے ہیں،’’تحریک جہاد اسلامی فلسطین کا تشکیل پانا،گزشتہ فکری غیر ثابت قدمی اور پریشان مرحلوں کے بہ نسبت ایک اصولی اور طبعیی رد عمل تھا،ان مرحلوں کے نتیجے میں امت مسلمہ کو بیس سال سے بھی کم وقفہ میں دو بڑی ہولناک مصیبتوں اور درد ناک وحشتناک جنگوں کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔
:تحریک جہاد اسلامی فلسطین کی تاسیس
تحریک جہاد اسلامی فلسطین کی بناید 1980ء میں رسمی طور پر شہید شقاقی ؒ کے ہاتھوں پڑی ۔اس زمانے میں بعض عربی اور اسلامی ممالک میں بھی جہاد اسلامی کے نام پر متعدد تنظیمیں سر گرم تھیں،جن میں سے ہر کوئی ایک فکری آئیڈیالوجی کی بنیاد پر کام کر رہی تھی۔البتہ اس فکری ہم آہنگی کے باوجود بھی ایک منظم اور متفق انجمن کی صورت نہیں پائی جاتی تھی۔اصولی طور پر جہاد اسلامی کی انجمنیں عرب ممالک میں اپنے علاقہ کی حدود سے زیادہ وسیع تحریک نہیں ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے علاقہ اور ملک کے حدود میں عمل پیرا ہے۔
تحریک جہاد اسلامی فلسطین صادق،مخلص،جانباز،تعلیم یافتہ مسلمان اور انقلابی افراد کے ذریعہ جن میں شہید شقاقی ؒ سر فہرست پائے جاتے ہیں،تشکیل پائی۔تحریک کی تاسیس کے وقت اس کے قیادتی اسٹاف کی عمر اوسطاً 30سے40سال تک تھی۔اس کے ابتدائی بانی بہترین افراد اور مختلف شعبوں میں ماہر تھے۔شہد شقاقی ؒ کی حیات میں بعض قابل ذکر تحریکی افراد کے نام کچھ اس طرح ہیں۔جناب ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح تحریک کے موجودہ ہائی سیکرٹری،جناب ڈاکٹر عبد العزیز عورہ جو اس وقت غزہ کی پٹی کی الازھر یونیورسٹی میں استاد ہیں،جناب ابراہیم ابو معمر ،جناب نافذ عزام وغیرہ۔ان افراد کے علاوہ تحریک کے ابتدائی بانیوں میں کچھ افراد بعض گزشتہ اسلامی روایتی انجمنوں میں بھی فعال ممبر رہ چکے تھے جبکہ بعض افراد ان طالب علموں میں سے تھے جنہیں سیاسی سر گرمیوں کی وجہ سے مصری یونیورسٹیوں سے نکالا گیا تھا۔
تحریک جہاد اسلامی کی قیادت اس کوشش میں تھی کہ فلسطینی قومی رحجان والے اسیروں نیز اسلامی روایتی انجمنوں کے حامیوں میں سے نئے افراد اپنے ساتھ ملحق کرے۔ان سرگرمیوں کے در پے صیہونی پولیس نے تحریک کی قیادت کو مقبوضہ سر زمینوں سے نکالنا شروع کیا کیونکہ وہاں پر وہ تحریکی قیادت کے آثار سمجھ چکے تھے۔تحریک جہاد اسلامی نے اپنے تاسیس کے ابتدائی سالوں میں ہی اپنی موجودگی بنیادی طور پر غزہ پٹی میں مرکوز کی تھی ،البتہ آہستہ آہستہ یہ موجودگی دریائے اردن کے مغربی ساحلی علاقہ بالخصوص نابلس اور جنین جیسے شہروں میں پھیل گئی۔