فلسطین کا ایک مشاہد ریاست کی حیثیت سے اقوامِ متحدہ میں شمولیت جہاں فلسطینیوں کے لئے بہت سارے مواقع پیدا کرتی ہے وہیں بعض مسائل سے ان کو دوچار بھی کرتی ہے ۔ اقوامِ متحدہ کا یہ فیصلہ فلسطینیوں کو بین الاقوامی قانون سے تمام تر فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتاہے ۔ یہ فلسطینیوں کو اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ متعدد مواقع پر اپنی خود مختاری کے خلاف اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی شکایات اقوامِ متحدہ میں درج کراسکتے ہیں ۔ جارحانہ اقدامات میں غیر قانونی گرفتاریاں ، فوجی جارحانہ سرگرمیاں نیز فلسطین کے آبیِ ذرائع کا ناجائز استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اسرائیل پر عالمی سطح پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ اقوامِ متحدہ میں ایک غیر رکنی مشاہد ریاست کی حیثیت سے فلسطین کی قبولیت کے حق میں ۱۳۸ ممالک نے ووٹ دئیے جو اس حقیقت پر دلیل ہے کہ عالمی برادری فلسطین کو ایک خودمختار اور آزاد ریاست کی شکل دینے کے معاملے میں پرعزم ہے ۔
اقوامِ متحدہ کے۱۹۳ ارکان میں سے صرف ۹ ارکان نے فلسطین کی مخالفت میں ووٹ دئیے اور ۴۱ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیاجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسئلۂ فلسطین پر واشنگٹن روزبروز تنہا ہوتا جارہا ہے ۔
لہٰذا امریکہ کے لئے اب اتنا آسان نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی شکایات کو ویٹو کرسکے ۔ بہرحال اس فیصلے کے بعض منفی پہلو بھی ہیں اور وہ یہ کہ اس قرار داد میں ۱۹۶۷ء کی جنگ کے دوران قبضہ کی گئی فلسطینی سرزمین کو فلسطین کا قانونی حصہ تو قرار دیا گیا ہے لیکن ۱۹۴۸ء کی جنگ میں اسرائیل نے جو فلسطین کا علاقہ اپنے قبضے میں لیا تھا اسے بالکل ہی نظر انداز کردیاگیا ہے ۔یہ سابقہ قراردادوں سے عظیم پسپائی ہے جن میں اقوامِ متحدہ کی قرارد ادنمبر ۱۸۱ بھی شامل ہے کہ جس میں ۴۲فیصد علاقے پر فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں فلسطینی ریاست کے قائم مقام صدر محمود عباس نے واضح طور سے فلسطینی پناہ گزینوں کی فلسطین واپسی کے حق کو فراموش کردیا ہے اور ان کے لئے اسرائیل سے تاوان وصول کئے جانے کے معاملے کو بھی نظر انداز کردیا ہے۔اقوامِ متحدہ میں غیر رکنی مشاہد ریاست کی حیثیت سے فلسطین کی قبولیت کی تائید میں فرانس، اٹلی اور اسکینڈی نیوین ممالک کا ووٹ دینا ثابت کرتا ہے کہ فلسطینی مسئلے پر مغربی ممالک میں اختلاف موجود ہے ۔ بہت ساری مغربی حکومتیں ۱۹۶۷ء کی مقبوضہ سرزمین پرفلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتی ہیں ۔ مغربی حکومتوں کا یہ موقف ان کے سابقہ موقف کے مقابلے میں کہ جو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مبنی تھا ۱۸۰ کے زوایے سے تبدیل ہوگیا ہے ۔ امید ہے یہ قرارداد مقبوضہ سرزمین میں یہودیوں کی آبادکاری کے وسیع تر منصوبے کو عملی شکل دینے میں بھی رکاوٹ بنے گی کیونکہ یہ منصوبے بنائے ہی اس لئے گئے ہیں کہ فلسطینیوں کی زیادہ سے زیادہ زمینوں پر قبضے کی راہ ہموار ہوسکے ۔
اگرچہ مغربی حلقوں میں اس قرارداد کو اسرائیل اور امریکہ کے لئے ایک زبردست شکست سے تعبیر کیا جارہا ہے لیکن مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والے بہت سارے ماہرین اسے ایک عملی حل کے بجائے سیاسی بازیگری پر مبنی ایک فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ فیصلہ فلسطینیوں کے حق میں بڑھتی ہوئی عالمی حمایت کے پیشِ نظر لیا گیا ہے تاہم یہ فیصلہ فلسطینیوں کو اقوامِ متحدہ کے میکنزم تک اب بھی بھرپور رسائی نہیں فراہم کرتاہے کہ وہ اس بنا پر اپنا مکمل حق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرسکیں۔علاوہ ازیں دوسری قراردادوں کی مانند تازہ ترین قرارداد بھی اسرائیل کو ان جرائم سے روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے گی جن کا ارتکاب اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف گذشتہ ۶ دہائیوں سے کرتا چلا آرہا ہے۔ اس فیصلے کے باوجود اسرائیل فلسطین کے معاملے میں عالمی مطالبے کو مستقبل میں بھی اسی طرح مسترد کرتا رہے گا جس طرح کہ وہ ماضی میں کرتا رہا ہے ۔
لہٰذا اس قرارداد سے فلسطین کی حیثیت میں عملاً کوئی فرق نہیں آئے گا اور یہ بات بعید از امکان ہے کہ فلسطینی حکومت اسرائیل کے خلاف قانونی ایکشن لینے میں کامیاب ہوسکے خاص طور سے اپنی ان سرزمینوں کے حوالے سے جنھیں اسرائیل نے ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۷ء میں زبردستی اپنے قبضے میں لے لیا تھا ۔ بعض مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ فرانس ، اٹلی ، اسپین ، ناروے ، ڈنمارک اور سوئزرلینڈجیسے یورپی ممالک کا قرارداد کی حمایت کرنا محض ایک دکھاوا ہے اس لئے کہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قرارداد سے اسرائیل کے موقف میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ لیکن چونکہ حالیہ ۸ روزہ جنگ، کہ جس کے دوران غزہ کے تقریباً ۱۶۰ شہری اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن گئے اور تقریباً ایک ہزار لوگ زخمی ہوئے، فلسطینیوں کی مظلومیت کو عالمی رائے عامہ میں پہلے سے زیادہ آشکار کردیا ہے لہٰذا ان نام نہاد مہذب ممالک کے لئے ضروری تھا کہ وہ فلسطینیوں سے متعلق اس قرار داد کی حمایت کرکے اپنی نمائشی انصاف پسندی کا مظاہرہ کریں ۔
بہرحال اس قرارداد کی نتیجے میں فلسطینیوں کا مورال کچھ نہ کچھ بلند ہوگا اور انھیں اپنے حقوق کے حصول کے حوالے سے کچھ نہ کچھ امید بندھے گی ۔ اس قرارداد کے نتیجے میں عالمی سطح پر جو فلسطینیوں کو حمایت ملی ہے اس کے نتیجے میں مزاحمتی تحریکوں کا بھی اعتماد قوی ہوگا ۔
—