(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) صیہونی حکومت کے بین الاقوامی بائیکاٹ میں شدت پیدا ہونے کے بعد دنیا کی اکثر یونیورسٹیاں بھی صیہونی حکومت کے ساتھ رابطہ اور تعاون ختم کرنے کےدرپے ہیں۔
صیہونی حکام نے مختلف شعبوں میں اسرائیل مخالف بین الاقوامی پابندیوں کے منفی اثرات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ چلی (Chile) کی یونیورسٹی کی جانب سے اسرائیل پر پابندی سے متعلق قرارداد منظور کئے جانے کے بعد اسرائیلی یونیورسٹیوں کے سربراہوں کی انجمن کے چیئرمین پرٹزلاوی نے صیہونی یونیورسٹیوں کے بین الاقوامی بائیکاٹ کو اسٹریٹیجک بائیکاٹ قرار دیا اور کہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ سےباہراس بائیکاٹ کا دائرہ پھیلنا صیہونی کمیونٹی کے لئے خطرناک ہے۔ چلی کی لاء فیکلٹی کی اسٹوڈنٹس یونین نے فلسطینیوں کے خلاف اختیار کردہ صیہونی حکومت کے مواقف پر تنقید کرتے ہوئے صیہونی حکومت اور صیہونی شہریوں کے ساتھ یونیورسٹیوں سے متعلق ہر طرح کے تعاون پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔چلی میں فلسطینیوں کی کمیونٹی مشرق وسطی سے باہر فلسطینیوں کی سب سے بڑی کمیونٹی ہے اور چلی میں تین لاکھ سے زیادہ فلسطینی رہتے ہیں۔
اسرائیل کے خلاف دی بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اینڈ سینکشنز موومنٹ {The Boycott, Divestment and Sanctions Movement (BDS Movement) } کے نام سے چلنے والی تحریک کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اسے دنیا بھر کی مختلف یونینوں، مذہبی گروہوں، این جی اوز اورعوامی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔
صیہونی حکومت کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کے سیاسی، سفارتی، ثقافتی اور اقتصادی میدانوں میں اس حکومت کے لئے بہت منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ صیہونی حکومت کے نیشنل سیکورٹی کے اسٹڈیز سینٹر نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو اکتیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
اسرائیل کے مسائل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت اور صیہونی آباد کاروں کے خلاف لگائی جانے والی پابندیوں کے باعث سالانہ آٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ ((UNCTAD: United Nations Conference on Trade and Development ) کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی معیشت میں دوسرے ممالک کی براہ راست سرمایہ کاری میں گزشتہ برسوں کی نسبت حالیہ برسوں کے دوران تقریبا چھیالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی کیمپین چلا کر فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں پر سے اسرائیل کے قبضے کے خاتمےاور فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے صیہونی حکام شدید تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
صیہونی حکومت کے خلاف عالمی سطح پر کئے جانے والے ردعمل سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ اس حکومت کی تشکیل کو چھ عشروں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ حکومت مختلف طرح کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے کے باوجود اپنے آپ کو جائز ثابت کروانے میں ناکام رہی ہے اور اسے اب ماضی سے زیادہ عالمی نفرت کا سامنا ہے۔ عالمی رائے عامہ مختلف طریقوں سے اسرائیل سےاپنی نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ فلسطین کی مظلوم قوم کے خلاف صیہونی حکومت کے وحشیانہ مظالم سے رائے عامہ کی آگاہی کے بعد اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت میں بہت تیزی آئی ہے۔
صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کی لہر نے صیہونی حکام کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے یہاں تک کہ صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی بائیکاٹ کی بڑھتی ہوئی لہر کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک صیہونی حکومت کی بقا کے لئے خطرہ ہے۔
یہ ایسی حقیقت ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ بھی اسے تسلیم کرنے پر-مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عرصہ قبل ایسوسی ایٹڈ پریس نے ڈین پیری کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں لکھا گیا تھا کہ موجودہ ماحول میں اس بائیکاٹ کی یاد تازہ ہو گئی ہے جس نے پچیس برس قبل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کی نابودی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔