(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )عوامی حلقوں میں پاکستان-اسرائیل تعلقات ہمیشہ سے ہی شدید ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس لبرل طبقات کہیں چھپتے چھپاتے تو کہیں اسٹیبلشمنٹ دھیمے سروں میں تسلیم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔
مجھے بچپن سے ہی اخبارات وغیرہ پڑھنے کی عادت اور ’بڑوں کی باتیں‘ سننے کا کافی شوق تھا، گفتگو خواہ سیاسی ہو یا پھر موضوعِ بحث بین الاقوامی معاملات۔ غالباً پانچویں جماعت کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے والد سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں پوچھا کہ ہمارا اسرائیل کے ساتھ جھگڑا کیا ہے؟ میرا خیال تھا کہ وہ قبلہ اول کی بات کریں گے، یہودیوں کے مظالم کے بارے میں بتائیں گے یا پھر امریکا کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ مگر انھوں نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ اگر میری چھوٹی بہن (جو کہ اس وقت پاس ہی کھیل رہی تھی) کو کوئی مارے گا تو میں کیا کروں گا؟ ظاہر ہے کہ میرا جواب یہی تھا کہ میں اپنی بہن کی مدد کروں گا اور اس کو مارنے والے سے بچاؤں گا۔ اس کے جواب میں میرے والد نے نہایت اختصار کے ساتھ پورا مسئلہ مجھے ان الفاظ میں یوں سمجھا دیا کہ فلسطینی ہمارے بھائی ہیں اور اسرائیل ان پر ظلم کررہا ہے۔
حالیہ دنوں میں جب اوپر تلے ایک ایک کرکے عرب ممالک اسرائیل کے آگے جھکتے چلے جارہے ہیں، مجھے اپنے والد کی یہ بات یاد آرہی ہے۔ اور تو اور وزیراعظم عمران خان نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ امریکا پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کےلیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
عوامی حلقوں میں پاکستان-اسرائیل تعلقات ہمیشہ سے ہی شدید ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس لبرل طبقات کہیں چھپتے چھپاتے تو کہیں اسٹیبلشمنٹ دھیمے سروں میں گاہے بگاہے اسرائیل کی بھارت کے ساتھ بڑھتی قربت کی آڑ لیتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔
اس مسئلے کے تین پہلو ہیں اور اس کے حوالے سے تین ہی بیانیے یا نکتہ نظر بھی ہیں۔ سب سے پہلے تو ان بیانیوں کا جائزہ لیتے ہیں، پھر اس مسئلے کے پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سب سے پہلے مذہبی بیانیہ ہے، جسے عوام میں بھرپور پذیرائی حاصل ہے کہ صہیونیوں نے ہمارے فلسطینی بھائی بہنوں کے گھروں، باغات پر قبضہ کرکے اور انھیں ملک سے بے دخل کرکے اسرائیل کی بنیاد رکھی۔ ان کے قبضے میں مسجدِ اقصیٰ اور قبلہ اول ہیں اور وہاں کے جنونی اور انتہاپسند یہودی آئے دن مسجدِ اقصیٰ کو شہید کرنے کی سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ باقی تمام مسلمانوں بالخصوص پاکستان کو اپنے فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح کی مدد کرنی چاہیے۔ ہمارے عوام کی اکثریت اسی بیانیے کو اپناتی نظر آتی ہے، چاہے وہ فیس بک پر مغربی کنارے یا غزہ پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت و مظالم کو اجاگر کرنے تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔
دوسرا بیانیہ لبرل اور مغرب نواز حلقوں کا ہے، جو امتِ مسلمہ کو مرحومہ سمجھتے ہوئے اپنے اپنے انفرادی قومی مفادات کو مقدم اور بالاتر قرار دیتے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جب کشمیر کے معاملے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے بجائے بھارتی موقف کی تائید کی تب بھی یہی بحث انہی حلقوں کی جانب سے چھیڑی گئی تھی کہ اگر عرب ہمارا ساتھ نہیں دیتے تو ہم کیوں ان کی خاطر اسرائیل کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
تیسرا بیانیہ زیادہ تزویراتی نوعیت کا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھارت اور اسرائیل کی قربت سے تھوڑی پریشان ہے۔ کیونکہ جس تیزی سے بھارت نے گزشتہ تیس برسوں میں جدید اسلحے کے انبار لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس حوالے سے اس کو حاصل اسرائیلی معاونت نے دفاعی اور تزویراتی حوالے سے ہمیں خاصا فکرمند کر رکھا ہے، اور ہماری اسٹیبلشمنٹ اس کا کسی صورت توڑ کرنا چاہتی ہے۔
یہ تو ہوگئے تینوں بیانیے۔ اب بات کرتے ہیں مسئلہ فلسطین کے ہم سے متعلق پہلوؤں پر۔
تو جناب اس مسئلے کا پہلا پہلو مذہبی ہے، جس میں مسجدِ اقصیٰ اور قبلہ اول آتے ہیں اور عوامی سطح پر یہی مقبول ہے۔ آپ کو پورے عالمِ اسلام میں ہر جگہ یہ معاملہ مذہبی نکتہ نظر سے ہی بیان ہوتا نظر آئے گا، چاہے وہ ایران میں مرگ بہ اسرائیل کے نعرے ہوں یا پاکستان میں یہودی ایجنٹوں کے طعنے۔ عوام یہودیوں کو مذہبی بنیاد پر دشمن اور امتِ واحدہ کے تصور کو آج بھی کسی نہ کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔
دوسرا پہلو سفارتی نوعیت کا ہے۔ صہیونیوں نے بڑی ہوشیاری سے ہولوکاسٹ کو بہانے اور ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اسرائیل کے قیام کےلیے بین الاقوامی حمایت و مدد حاصل کی۔ وہ آج بھی اسی حوالے سے پوری دنیا کے میڈیا اور سفارتی حلقوں میں اپنے خلاف ہونے والی بے ضرر سی نکتہ چینی کو بھی اسی بہانے کی مدد سے اینٹی سیمیٹزم یا یہود دشمنی قرار دلوا دیتے ہیں۔ عالمِ اسلام آج تک اس پہلو کا توڑ نہیں ڈھونڈ سکا ہے۔
تیسرا پہلو جو کہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہونا چاہیے مگر کوئی اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے، وہ ہے اس مسئلے کا انسانی پہلو۔ اسرائیل کے قیام سے لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی بے گھر ہوئے، ان کی نسلیں مہاجر کمیپوں میں پل کر جوان ہوئیں اور ہورہی ہیں۔ پاکستان میں (جہاں تقسیم کے وقت ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم سہتے ہوئے لاکھوں افراد نے اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی جانب ہجرت کی) فلسطینیوں کے اس دکھ کو شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور آج بھی آپ کسی بھی پاکستانی مسجد میں چلے جائیں آپ کو کشمیر کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کےلیے دعا ہوتی لازمی ملے گی۔
مجھے یہاں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں، جو انھوں نے اسرائیل کے قیام کے حوالے سے کئی مواقعوں پر کہے ہیں۔ ایک حوالے سے تو ان کا موقف مذہبی طبقات سے بھی زیادہ سخت نظر آتا ہے، جب وہ اسرائیل کو امریکا اور برطانیہ کی ناجائز اولاد قرار دیتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کی فلسطینیوں کی حمایت و یگانگت پاکستان اور مسئلہ کشمیر سے بھی مقدم تھی۔ خیر اس تمام پس منظر کے بعد آتے ہیں اصل سوال پر کہ کیا پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرلینے چاہیئں یا نہیں؟ اور بالفرض اگر ہم نے تسلیم کر بھی لیا تو ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟
پہلے اسٹیبلشمنٹ والے بیانیے کی بات کرتے ہیں۔ نہ تو ہماری معیشت کا حجم بھارت کی معیشت جتنا ہے اور نہ ہی ہماری مارکیٹ اتنی بڑی ہے کہ اسرائیل کو ہم بھارت سے دور کردیں، جیسے کہ بھارت نے سعودی عرب کو ہم سے دور کیا ہے۔ سعودی عرب کا (چین کی طرح سے) بھارت کے ساتھ کوئی براہ راست جھگڑا بھی نہیں ہے، مگر ان دونوں کی وہاں ہونے والی سرمایہ کاری پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ صرف بھارت کی معیشت اور منڈی کے حجم کا اثر ہے۔ اب اس صورتحال میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارے اسرائیل کو تسلیم کرلینے سے وہ بھارت سے دور ہوجائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ سعودی عرب، جس کی سیکیورٹی امریکا کے بعد پاکستان کی مرہونِ منت ہے، وہ بھی معاشی معاملات میں ہمیں گھاس نہیں ڈال رہا ہے تو اسرائیل بھارت کو ناراض کرنے کا خطرہ کیونکر مول لے گا؟ اور آپ سب نے دیکھ ہی لیا ہے کہ بھارت اپنی معیشت کو سفارت کاری میں بھرپور طریقے سے استعمال کررہا ہے، جیسے کہ جب مہاتیر محمد نے مسئلہ کشمیر کی بات کی تو بھارت نے ملائیشیا سے پام آئل کی خریداری بند کردی تھی۔ اگر ہم نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو حد سے حد اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ ہم ان سے بھی ایک دو ارب ڈالر ادھار پکڑلیں اور بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
جہاں تک بات ہے عوامی بیانیے کی، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں ریاستی پالیسیاں کسی حد تک عوامی دباؤ کا اثر لیتی ہیں مگر زیادہ نہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہمارے موقف کی بنیاد قائداعظم کے مرتب کردہ اصول ہی ہیں۔
ہم نے بین الاقوامی فورمز پر ہمیشہ فلسطینیوں کی وکالت کی ہے۔ عربوں کی اسرائیل کے خلاف جنگوں میں کسی نہ کسی طرح مدد بھی کی ہے، کہیں فوجی ڈاکٹروں کی شکل میں تو کہیں ایئر فورس کے پائلٹس، اور تو اور بعض عرب ممالک کی افواج کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے میں بھی کسی نہ کسی حد تک ہماری افواج کا کردار رہا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس طرزِ عمل سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ پہنچ بھی رہا ہے یا نہیں؟ اور کیا اگر اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو پھر کیا فلسطینیوں کےلیے کوئی رعایت یا فائدہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں چند ممالک کے طرزِ عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
عالمِ اسلام میں اسرائیل کے حوالے سے دو گروپس ہیں، جن میں ایک جانب ترکی، مصر اور اردن (اور اب متحدہ عرب امارات و دیگر) ہیں، جنھوں نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اقتصادی تعلقات بھی ہیں۔ اور دوسری جانب شام، عراق، سعودی عرب، ایران و پاکستان وغیرہ آتے ہیں۔ شام اور عراق کی اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگیں ہوچکی ہیں۔ ایران بالواسطہ (حزب اللہ وغیرہ کو اسلحہ اور مالی معاونت فراہم کرتے ہوئے) اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی کوئی فوجی حیثیت نہیں ہے اور پاکستان اور دور پار کے دیگر اسلامی ممالک کا کردار عموماً اقوامِ متحدہ میں زبانی جمع خرچ جتنا ہی ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات آج کے نہیں، مگر آج تک ترکی مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری نہیں رکوا سکا ہے۔ اور رہی بات مصر کی، تو اسرائیل کےلیے غزہ کا محاصرہ مصر کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو نہ جنگ کرکے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور نہ ہی تعلقات قائم کرکے ان کی زندگیوں پر کوئی مثبت اثر پڑ رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ اول تو پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنا ہی نہیں چاہیے، کیونکہ ہماری عربوں جیسی مجبوریاں نہیں ہیں کہ ایران ہمیں کھا جائے گا۔ ہمیں اپنی مسلح افواج اور ان کی دفاعی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ ہے۔ ہمارا ایک اصولی موقف ہے جو بین الاقوامی انسانی و اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے، اور اگر کسی وجہ سے ہمیں یہ گناہِ بے لذت کرنے پر مجبور کر ہی دیا جائے تو اور کچھ نہیں تو اپنا سارا غیرملکی قرضہ معاف کروائے بغیر یہ کام ہرگز نہیں کرنا چاہیے اور وہ بھی پیشگی۔ کیونکہ اگر اپنی آخرت بیچنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو کم از کم اس کے بدلے دنیا ہی خرید لی جائے۔
تحریر: ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی
بشکریہ ایکسپریس نیوز ویب