(تحریر: ز ینب عیسیٰ لبنان)
ترجمہ: ابو مریم
اسرائیلی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں کے لا متناہی درد کے صفحات کی کہانی انتہائی درد ناک ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ 5000سے زیادہ فلسطینی قیدی انتہائی خطر ناک حالت میں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور صیہونی مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔
فلسطینی میں جیلوں میں قید ہزاروں قیدیوں میں خواتین،بچے اور بوڑھوں سمیت نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے جو روزانہ کی بنیادوں پر غاصب صیہونی فوجیوں کی جانب سے نفسیاتی اور جسمانی اذیتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔دریں اثناءفلسطینی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف احتجاج کی ایک چیخ سنائی دیتی ہے تاہم وہ کافی نہیں ہے۔ایسے حالات میں صیہونی سلاخوں کے پیچھے قید ہزاروں فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقامت کا جو ہتھیار پسند کیا ہے وہ ہے اسیروں کی بھوک ہڑتال۔
:اسرائیلی جیلیں غیر انسانی
گذشتہ دنوں میںنے فلسطین میں حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم ”المازن“ کے سربراہ عسام یونس نے گفتگو کی جس میں انہوںنے بتایا کہ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو مختلف بیس جیلوں میں قید کیا گیا ہے جہاں پر رہنے کی جگہ انسانی زندگی کے قابل نہیں ہے۔اسرائیلی جیلیں کیڑوں،لال بیگوں ،چوہوں اور بچھوﺅں سمیت کئی خطر ناک کیڑوں سے بھری پڑی ہیں جبکہ یہی خطر ناک کیڑے فلسطینی قیدیوں کے استراحت کے لئے استعمال کئے جانے والے سامان اور دیگر اشیاءمیں پائی جاتی ہیں اور فلسطینیوں کے لئے سخت اذیت کا باعث بنتی ہیں،جبکہ النقبہ کے مقام پر خطر ناک سانپ بھی موجود ہیں جو قیدیوں کے لئے خطر ناک ہیں۔
اسرائیلی حکام جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو بیس بیس گھنٹے لگاتار تفتیش کرتے رہتے ہیں اور ان کو سونے بھی نہیں دیا جاتایا پھر جب ان کا دل چاہتا ہے فلسطینی قیدیوں کو نیند سے بیدار کر کے تفتیش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ عمل بیس بیس گھنٹوں تک جاری رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ 1400فلسطینی قیدی سخت بیماری کی حالت میں موجود ہیں جبکہ ان کو طبی سہولتیں بھی میسر نہیںکی جا رہی ہیں۔اسرائیلی جیلوں کے حکام قیدیوں کو کئی کئی گھنٹے گرم اور سخت ٹھنڈے مقامات پر کھڑا رکھتے ہیں اور انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔نہ صرف یہی بلکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے اور ان کو نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک نہیں کیا جا رہا اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ اسرائیل جیلیں غیر انسانی ہیں اور انسانیت کی سطح سے گری ہوئی ہیں۔
:اسرائیل نے معاہدوں کو دھماکوں سے اڑا دیا ہے
عسام یونس نے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام نے اپنے ایک فوجی افسر گیلاد شالیط کو حماس کے قبضے سے چھڑوانے کے لئے جو قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا تھا اس معاہدہ کو دھماکے کی طرح اڑا دیا گیا ہے جبکہ آزاد ہونے والے متعدد فلسطینی قیدیوں کو اسرائیل نے دوبارہ گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔
عسام یونس نے بتایا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ فلسطینی قیدیوں کی تعداد آئے روز تبدیل ہو جاتی ہے اور بعض اوقات تو گھنٹوں کی بنیاد پر اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد بڑھ رہی ہوتی ہے اس لئے یہ کہنا انتہائی مشکل کام ہے کہ فلسطینی اسیروں کی کل تعداد کیا ہے۔یونس نے بتایا کہ فلسطینیوں کو اس طرح قید کر لیا جاتا ہے کہ ان کا کوئی جرم نہیں بتایا جاتا اور نہ ہی ان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
:بھوک ہڑتال ہی واحدہتھیار ہے
عسام یونس نے کہا کہ اس طرح کے سخت حالات میں بھوک ہڑتال ہی واحد ایک ایسا ہتھیار ہے جو فلسطینی قیدیوں کی جنگ میں کام آ تا ہے جبکہ دو قیدی سمیر العساوی اور ایمن شوانہ جو کہ گذشتہ تین ماہ سے بھوک ہڑتال پر ہیں ان کی حالت شدید نازک ہو چکی ہے ۔ایمن شوانہ کی حالت اس وقت شدید خطرناک ہے کیونکہ بھوک ہڑتال کی وجہ سے وہ اپنی آنکھوں کی بینائی کھو چکے ہیں جس کی وجہ اسرائیلی حکام کی جانب سے انہیں بر وقت ادویات فراہم نہ کرنا ہے۔جبکہ دونوں قیدیوں کے جسم کے حصوں نے احساسات کھو دئیے ہیں ۔
فلسطین میں حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی اس تنظیم کے سربراہ نے خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری نے قیدیوں کے مسئلہ پر اسرائیل پر دباﺅ نہ بڑھا یا تو نتائج خطر ناک ہوں گے اور فلسطینی قیدیوں نے عہد کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی روح کے ساتھ شکست دینے کے لئے تیار ہیں اور بھوک ہڑتال کے اس ہتھیار کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔عسام یونس نے کہا کہ آزادی ہر انسان کا حق ہے اور یہی حق فلسطینی قیدی حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔
عسام نے کہا کہ اسرائیل اب زیادہ دیر تک بین الاقوامی تحفظ میں نہیں رہ پائے گا اور امید ہے کہ فلسطینی قیدیوں کے بھوک ہڑتالہ انتفاضہ کے سامنے تسلیم خم ہو جائے گا۔اسرائیل یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین سے مبرا ہے اور فلسطینی قیدیوں کو لگتا ہے کہ نا معلوم مستقبل میں ہی ان کی قسمت ہے۔
دوسری جانب فلسطینی سیاسی جماعتوں کی تقسیم نے فلسطینی قیدیوں کے اہم ترین مسئلے پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں جس کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔عسام یونس نے اختتامیہ اور آخری جملہ میں خلاصہ کہا ہے کہ ”اسرائیل کو صرف اور صرف مزاحمت اور مقاومت کی زبان می بات کی جانی چاہئیے کیونکہ اسرائیل مزاحمت اور مقاومت کی زبان ہی سمجھتا ہے“۔