(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) متحدہ عرب امارات نے 13 اگست کو ایک مشترکہ بیان کے ذریعے اسرائیل سے معمول کے تعلقات استوار کرنے کا اعلان کر کے دنیا کو حیران کر دیا اور یوں وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔
اسرائیل اور خلیجی ملکوں کے درمیان پس پردہ تعاون کئی سال سے چل رہا تھا جس کا نقطہ عروج اس سال جنوری میں امریکہ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا سامنے آنا تھا جس کو خلیجی ممالک کی حمایت حاصل تھی لیکن سرکاری ذرائع اور ذرائع ابلاغ نے خلیجی ملکوں اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ تعلقات کو منظر عام پر لانے سے عام طور پر گریز ہی کیے رکھا۔
اس پس منظر میں اسرائیل اور محتدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان واضح طور پر ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔
اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے سے جڑے نازک معاملات سے نظر چراتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے ذرائع ابلاغ نے نئے رشتے کے فوائد کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کر دی۔ اس کے ساتھ ہی ابو ظہبی نے غرب اردن کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی حکومت کے منصوبوں کو معاہدے کی شرط کے طور پر ختم کرنے کا بھی سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی۔
متحدہ عرب امارات نے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبوں کو ختم کرنے کی شرط پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوا ہے۔ اگر اس دعوی کو تسلیم کر لیا جائے تو متحدہ عرب امارات نے خطے کے معملات پر اثرا انداز ہونے اور انھیں سلجھانے والے ملک کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور اس ضمن میں اس نے سعودی عرب حیسے عرب دنیا کے روائتی طور پر بااثر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
لیکن مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے معاملے پر ابہام کی وجہ سے ایک متبادل بیانیہ بھی پایا جاتا ہے اور جس میں متحدہ عرب امارات کی حثیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا اس کی اتنی بساط ہے کہ وہ اسرائیل کو ان علاقوں میں اسرائیل میں شامل کرنے سے روک سکے۔متحدہ عرب امارات نے اپنے عزائم کے بارے میں کوئی راز داری نہیں برتی لیکن وہ اپنی خارجہ پالیسی کے بارے میں زیادہ تر خاموشی ہی اختیار کیے رکھتا ہے اور اس نے خطے میں اپنے حلیفوں کی ہمیشہ پس پردہ مدد کرنے کو ترجیح دی ہے۔
باوجود اس کے متحدہ عرب امارات نے خطے کے تنازعات میں دیگر خلیجی ریاست کے مقابلےمیں بہت سرگرم کردار ادا کیا ہے جن میں یمن، لیبیا اور کسی حد تک مصر کی اندرونی سیاست بھی شامل ہے اور اس کے مفادات قرنِ افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔
ان تمام تنازعات میں اس کی مداخلت کی کچھ وجوہات ہیں جن میں ایران اور ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور اسلام کی سیاسی تحریکوں کو اپنے سرحدوں سے دور رکھنا ہے۔ بادشاہت کی وجہ سے اس سارے کھیل میں اس کے اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے مفادارت یکجا ہو جاتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے اپنے حلیف سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ملکوں کے مقابلے میں بہت جارحانہ رویہ اختیار کیے رکھا ہے۔ جہاں سعودی عرب کا رویہ قدرے محتاط رہا اور اس نے ہمسایہ ملکوں سے اٹھنے والے خطرات کو دبانے اور ٹھنڈا کرنے کو ترجیح دیئے رکھی وہیں متحدہ عرب امارات کے موجودہ ولی عہد محمد بن زید نے کئی قدم آگے بڑھ کر اپنے تمام وسائل کو بروکار لاتے ہوئے خطے اور اس کے باہر بھی تنازعات پر اثر انداز ہونے اور ان کا حل اپنے حق میں ممکن بنانے کے لیے تمام تر کوششیں جا رکھیں۔
ایک مرحلے پر متحدہ عرب امارات یمن کے طویل بحران میں سعودی عرب کے بھی سامنے آ کھڑا ہوا جہاں اس نے اپنے سابق اتحادی کے برخلاف سعودی عرب کی حمایت یافتہ اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت جس کی سربراہی عبدربو منصور ہاری کر رہے تھے اس کے مقابلے میں علیحدگی پسند جنوبی عبوری کونسل کی حمایت شروع کر دی۔
بالکل اسی طرح سعودی عرب کا شاہی خاندان حالیہ برسوں میں آہستہ آہستہ اسرائیل کے قریب ہوتا جا رہا تھا اور خاص طور ایران سے لاحق ہونے والے خطرے کے تناظر میں۔ لیکن سعودی شاہ اور ولی عہد پہلے ملک کے اندر اس کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے بارے میں شدید مخالفانہ سوچ پائی جاتی ہے اور خطے میں وہ اپنی ساکھ پر بھی کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہتے ۔
اس کے برعکس متحدہ عرب امارات کے موجوہ ولی عہد محمد بن زید ملک کے اندر مخالفانہ اور تنقیدی آواز کو مکمل طور پر دبانے کے بعد اس بات کا خطرہ مول لے سکتے تھے کہ وہ خطے کے تنازعات میں دوسروں سے آگے بڑھ کر کردار ادا کرے چاہے وہ کووڈ 19 پر قابو پانے کا معاملہ ہو یا انسانی امداد کا اور اس دوڑ میں وہ اسرائیل سےمعمول کے تعلقات قائم کرنے کے موڑ پر آ گیا۔
مقبوضہ علاقوں کے انضمام کا خاتمہ
متحدہ عرب امارات کی پہل کا سوال قطعی طور پر مقبوضہ غرب اردن کے اسرائیل میں انضمام کے معاملے سے جڑا ہوا ہے جسے خلیج کی اس عرب ریاست نے استعمال کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس نے اسرائیل سے معاہدہ کر کے اسے غرب اردن کے مقبوضہ علاقے ضم کرنے سے روک دیا ہے۔
اسرائیل سے معاہدے کے اعلان کے فوری بعد سکائی ٹی وی عربیہ کو ایک انٹرویو کے دوران محتدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور گرگاش کا کہنا تھا کہ غرب اردن کو ضم کرنے کا اسرائیلی پلان ایک ٹائم بم کی طرح ہے جس سے فلسطین کے تنازع کے دو ریاستی حل کے تمام امکانات ختم ہو جائیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں یہ عندیہ دیے جانے کے باوجود کہ غرب اردن کو ضم کرنے کا منصوبہ فل الحال زیر غور نہیں ہے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیل کے اہم سرکاری اہلکاروں نے کہا کہ غرب اردن کے مقبوضہ علاقوں کے بارے میں ان کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے صرف انہوں نے ان منصوبوں کو فی الحال موخر کر دیا ہے۔نتن یاہو نے اپنے ایک ٹی وی پر نشر ہونے والے خطاب میں غرب اردن کے علاقوں کو یہودا اور سمارا کے عبرانی ناموں سے پکارتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی مدد سے ان علاقوں تک اسرائیل کی خود مختاری کو وسعت دینے کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
عرب دنیا کے بہت سے ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات سے معاہدہ کرنے سے بہت پہلے اسرائیل نے اپنے ارادوں کو موخر کر دیا تھا اور اس کی وجہ اسرائیل کے اندر بن یامین نتن یاہو کی حکومت کو درپیش سیاسی مسائل تھے جو ان منصوبوں کو موخر کیے جانے کی اصل وجہ بنے۔
اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے بھی یہ بات کہنے میں دیر نہیں لگائی کہ اس معاہدے نے امن کے بدلے زمین کی روایت کو توڑ دیا ہے اور اس معاہدے نے امن کے بدلے امن کی مثال قائم کی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے اس معاہدے کو دھوکہ قرار دیا اور کہا کہ یہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
فلسطینیوں کی شمولیت یا ان کو اعتماد میں لیے بغیر کیے گئے اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی اسرائیل فلسطین تنازع کے حل میں یا زمینی حقیقتوں میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
دوسری طرف یہ اس بات کا اشارہ بھی دیتا ہے کہ خلیجی ملکوں میں یہ رجحان پیدا ہو رہا ہے کہ وہ اپنی روائتی پالیسی کو تبدیل کریں جس کے بارے میں کچھ کا کہنا ہے کہ ایک ریاستی حل کی حقیقت کو مقدر میں لکھے کے طور پر تسلیم کر لیں۔
تمام باتوں کے باوجود متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی پیش رفت نے خطے میں طاقت کے توازن کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے۔
غالباً فلسطینیوں کی قیمت پر ابو ظہبی نے خطے میں اسرائیل کا نیا اتحادی بن کر امریکہ سے بھی اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر لیا ہے۔
اندورنی اور خارجہ امور میں اپنی جارحانہ اور حقیقت پسندانہ سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے علاقائی سیاست کو نئی شکل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا جو کہ نہ صرف اسرائیل فلسطینی تنازع میں بلکہ وسیع تر معاملات اور ایران کے خلاف خطے کی سیاست کا پلڑا ایک طرف جھکا دے گا۔
جونا صبا
ماہر امور مشرقی وسطیٰ