اگر اقوام عالم بالخصوص اور مسلمان اقوام میں بالعموم ،اگر انسانی ضمیر نام کی کوئی چیز باقی ہو،انسانی حقوق کہنے والی کوئی شے زندہ ہو،
غیر سرکاری،سرکاری قومی اور بین الاقوامی قیدیوں کے لئے لڑنے والی کوئی تنظیم موجود ہے،تو کیوں ان مظلوم فلسطینی قیدیوں کی کوئی خیر خبر نہیں لے رہا جو کئی ماہ سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جیلو ں میں بے جرم و بے خطا قید ہیں اور بھوک ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی جیلوں میں عام آدمی،مرد،عورتیں،بچے،بوڑھے ،جوان سب قید ہیں جن کی خبر گیری نہیں ہو رہی ہے ،افسوس ہے ان عالمی اداروں پر جو جنیوا کنونشن کے حوالے دیتے نہیں تھکتے ،انسانی حقوق کے نام پر ملک کے ملک بلیک میل کرتے ہیں ،لیکن کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی تو وہ ہیں مظلوم فلسطینی قیدیوں کی بھوک ہڑتال۔۔۔کہ بہت سے قیدی قریب المرگ ہیں۔
انسانی ضمیروں کی موت کا اس سے زیادہ بھیانک منظر شاید ہی کسی دور میں دیکھا گیا ہو ،مگر جاہلیت جدید کے سب سے بڑے سرغنے امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل سمیت وہ نام نہاد مسلمان ممالک جو عوام فریبی کے ئے وقتی شعار بلند کرتے ہیں ،خاموشی مرگ سب پر طاری ہے سوائے چند ایک کے،جن کا ذکر شاید احباب کو ٹھیس پہنچا دے۔
دوسری طرف وہ جو فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں وہ کسی ذاتی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ مادر وطن کی اغیار کے ہاتھوں سے نجات کی جد وجہد کے جرم میں قید ہوئے ہیں اور دشمن بھی ایسا کہ وہ صرف فلسطین اور فلسطینیوں پر قناعت نہیں کرے گا ،اگر کسی طرح فلسطینیوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر ایک ایک کر کے دیگر تمام ہمسایہ ممالک کو اپنے کنٹرول میں گرفتار کرے گا ،ان فلسطینی قیدیوں کو اس بات کا قوی احساس ہے چنانچہ وہ اپنی شجاعت،شہامت،عزم و ہمت اور استقامت سے مسلمان اقوام بالخصوص اقوام عالم کی عزت و شرف کا دفاع کر رہے ہیں اور مقاومت کی علامت بنے ہوئے ہیں ،اور گزشتہ کئی مہینوں سے بھوک ہڑتال کے زریعے اپنی آزادی کی جد وجہد بھی خود کر رہے ہیں۔یہ جو حنا شلابی،خضر عدنان جیسے اور ان کے ساتھ کے لوگ اسوہ ہیں۔دوسروں کے لئے۔اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی منتخب حکومت جن کے آدھے اراکین پارلیمنٹ قید ہیں ،آدھے جلا وطن ہیں ،وہ کوشش کرتے ہوئے مرتے نہیں ہیں لیکن اسلامی دنیا اور بین الاقوامی برادری کیوں اس قدر خائف ہیں کہ اقوام متحدہ ،امریکہ اور اسرائیل کی بے جا ہٹ دھرمیوں کے سامنے مجبور محض نوکر کی طرح جی حضوری میں لگی ہوئی ہے۔کیا انسانی ضمیر مر چکا ہے؟ کیا اسلامی ضمیر نام کی کوئی چیز ہے جو احساس و جوابدہی پر اکسائے؟قیدی ذاتی مشقوں اور جد وجہد کے زریعے باہر والوں کی مدد کر رہے ہیں اور آزادی حاصل کر رہے ہیں اور جو قیدی ہیں وہ بھوک ہڑتال پر ہیں اور تازہ اطلاعات موصول ہوئی ہے کہ بھوک ہڑتال میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے ،اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیلی مظالم میں بھی شدت آتی جا رہی ہیاور وہ اپنی بربریت کے زریعے بھوک ہڑتال کی تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اسرائیلی جیلوں میں پہلے ہی ظلم و بربریت کم نہ تھی اب اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر ایک بات جس پر توجہ دینی چاہئیے وہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ ان قیدیوں کا مطالبہ کیا ہے؟ ان قیدیوں کا مطالبہ بنیادی انسانی حقوق سے مربوط ہے یا نہیں؟بغیر عدالتی کاروائی کے ہزاروں انسانوں کو قید و بند میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟یا اقوام متحدہ اور امریکہ بتائیں کہ فلسطینیوں کی آزادی کیوں سلب ہو؟ کیا جنیوا کنونشن اور انسانی حقوق کے چارٹر میں فلسطینیوں کے لئے الگ کوئی شق لکھی گئی ہے جس سے مسلمانان عالم سمیت باقی دنیا بے خبر ہے۔۔اور اگر اس شق کا علم ہے تو صرف اسرائیل اور امریکہ کو۔۔۔ایک طرف اسرائیل آئے روز رہے سہے مکانات کو گرا رہا ہے ،فلسطینیوں کی آبادیاں بلڈوز کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اغوا،قتل،گرفتاریاں اور اس جیسے دیگر اوچھے ہتھکنڈے بھی جاری ہیں۔
قیدیوں کی مقاومت اور حوصلے کے سامنے بد حواسی کے عالم میں ان پر تشدد میں اضافہ کر دیا گیاہے ،اسرائیل نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی اور نہ ہی کرے گاوہ تو ان بد اعمالیوں کو اپنا حق مسلم سمجھتا ہے ،ہو سکتا ہے کہ یہ ظلم وستم اسرائیل کے اربابِ بسط و کشاد کو اپنی خود فریبی کے سلسلہ میں کچھ تسکین کا سامان کر سکے۔مگر مکافات عمل کی رفتار کو ضرور تیز کر دے گا بقول تحریک حماس کے مجاہد قیدی رہنما عبد اللہ بر غوطی ،جو تاریخی طور پر اور انسانی تاریخ کے سب سے طویل المعیاد سزا کے مستحق قرار دئیے گئے ہیں اور ان کو 6633سالوں کے لئے قید کیا گیا ہے،کہتے ہیں: قیدیوں کی جانب سے بھوک ہڑتال کی تحریک اسرائیلی انتظامیہ کو بد حواس کر رہی ہے ،ان کے حواس جواب دے رہے ہیں چنانچہ ان کی خون خواریت میں بھی اضافہ ہو رہاہے وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ اس تحریک کو رعب،ظلم و ستم،اور دہشت کے زریعے دبایا جا سکے،لیکن قیدیوں کے حوصلے اور استقلال مزید بلندیوں کی طرف محو پرواز ہیں۔
لہذٰا قیدیوں نے یہ شعار بلند کیا ہوا ہے کہ ’’آزادی یا شہادت‘‘ تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی ،اسلامی او ر عرب ممالک کے ارباب اقتدار کی یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ ایک عیاں اور واضح نکتہ کو کیوں نہیں سمجھ رہے کہ خوف اور دہشت کا زمانہ گزر چکا ہے۔
اسرائیل کی طاقت کا سحر تو حزب اللہ اور حماس نے یکے بعد دیگرے توڑ دیا ہے اسرائیل کے پیچھے امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کا سہارا بھی اسے نہ بچا سکا کہ وہ حزب اللہ اور حماس کے جوانوں کے ہاتھوں بد ترین شکست سے دوچار ہوا،اس کے با وجود بھی اسلامی اور عرب ممالک کے صاحبان اقتدار اسرائیل سے اس قدر خائف کیو ں ہیں؟ کہیں فلسطینیوں کے ان تمام مصائب میں ان کا بھی ہاتھ تو نہیں؟؟؟؟
کیاان عرب اسلامی حکمرانوں کی خاموشی اور سکوت مرگ اور مذاکراتی سیاست اور اسرائیل کی حمایت ان کی حکمرانی کو کوئی فائدہ پہنچانے والی ہے؟
اگر ایسا ہے تو یمن کا عبد اللہ صالح،تیونس کا بن علی،مصر کا حسنی نا مبارک،لیبیا کا قذافی اپنی تمام تر کاسہ لیسی کے باوجود اقتدار نہ بچا سکے ،کیا یہ عبرت کے لئے کافی نہیں ہے؟ جب ان کی حکومتیں نہ بچ پائیں تو تمھارے کئے کیا کر سکیں گے؟ مسلم حکمرانوں کو اپنے عوا م کے شانہ بشانہ فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہونا چاہئیے۔
مظلوم اسراء کے حوصلوں کو دیکھنا چاہئیے وہ جیل میں تشدد جھیل رہے ہیں اور ساتھ ہی بھوک ہڑتال بھی کر رکھی ہے ،’’آزادی یا شہادت‘‘ کا جام نوش کرنے تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔منصف مزاجان عالم سے اور امت مسلمہ سے تقاضا ہے کہ اس عزیمت ،ہمت اور حوصلے کو داد دیں۔اس لئے کہ ایسے ہی عزائم سے ملتیں پروان چڑھتی ہیں اور نسلیں رشد وترقی کے راستے پر گامزن ہو تی ہیں اور عزت و سربلندی حاصل کرتی ہیں۔اپنوں ا و ر غیروں کے لئے عزت و شرف کا نشان بنتی ہیں۔
فلسطینی اسیران کی بھوک ہڑتال اتنی سادہ بھوک ہڑتال نہیں ہے بلکہ تاریخ انسانیت کے بے شرم ترین ،ظالم ترین اور غاصب و قابض و ظالم و جابر وحشی حکومت کے طرز حکومت اورجود کے خلاف حساس اور جان لیوا کوشش ہے۔اسرائیل اور امریکہ کے مہذب نقاب کو اتار کر اسی کوشش کے ذریعے دیگر مہذب دنیا کو اصل چہرہ دکھایا جا سکے۔کہ لو تم نازیوں کی جانشین حکومت کے حمایتی ہو،جن کے جرائم سے خود شرمندہ اور خجل ہوا اور اگر اسرائیل کے کرتوت کی حمایت کرتے ہو تو جرمن نازیوں کی کیوں نہیں کرتے؟ یہ انسانوں کی حکومت نہیں ہے بلکہ انسان نما بھیڑیوں کی حکومت ہے جو جیلوں میں قید ،بے بس،مظلوم اور نہتے اسیروں پر ظلم و بربرہت جاری رکھے ہوئے ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جمعہ 4جولائی 2012ء کو رملہ کے قید خانے کے سامنے بھوک ہڑتالی اسیر وں کی حمایت میں منعقد کی جانے والی ریلی سے مزید 20افراد گرفتار کر
لئے گئے اور جیل بھیج دیا گیا۔رملہ جیل کے سامنے احتجاج کرنے والوں کی گرفتاری سے اسرائیلیوں کے چہرے سے ایک اور نقاب ہٹ گیا ہے کہ اسرائیلی کس طرح مہذب اور جمہوری دنیا کے نمائندوں کے درمیان بیٹھنے کا حق رکھتے ہیں۔جبکہ اپنے زیر انتظام شہریوں کی بنیادی آزادی سلب کی جا چکی ہے جن آزادیوں اور تہذیب و تمدن کو غاصب ریاست کا سفیر کیلیفورنیا یونیورسٹی میں نشر کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔لیکن وہ سفید جھوٹ تھا جو کچھ وہ بیان کر رہا تھا چنانچہ آزاد ضمیر انسانوں نے سوال و جواب اور احتجاج کے زریعے اسے لا جواب کر دیا ،طلباء نے پے در پے سوالات کئے اور احتجاج کیا اور سفیر کی سٹی گم ہو گئی اور وہ فرار ہوا۔ظالموں کا حشر یہی ہونا تھا ،اس وقت کو جلد آنا چاہئیے ’’وعدے کا وقت صبح کا ہے ،کیا صبح قریب نہیں آئی‘‘۔ القرآن