(تحریر:صابر کربلائیریسرچ اسکالر)
:امام شیخ حسن البناء
سنہ 1906ءمیں محمودیہ میں پیدا ہوئے،گھر کا ماحول خالص اسلامی تھا۔ان کے والد شیخ عبد الرحمن البناءکا پیشہ گھڑی سازی تھا۔حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے۔
حسن البناءکو دینی تعلیم کی طرف توجہ مبذول کروانے کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کریم بھی کروایاتاہم 12سال کی عمر میں انہوں نے اسماعیلیہ کے مدرسہ الرشادالدینیہ میں داخلہ لیا اور دینی تعلیم جاری رکھنے کے علاوہ انہوںنے ایک اسلامی گروپ میں بھی شمولیت اختیار کر لی جس کا نام ”انجمن اصلاح اخلاق“ تھا۔پھر کچھ عرصے بعد وہ ایک ایسے ہی گروپ میں شامل ہوئے جس کانام ”انجمن نہی عن المنکرات“ تھا۔
سنہ 1919ءمیں حسن البناءنے تیرہ سال کی عمر میں تصوف کے سلسلے میں عاصفیہ سے تعلق جوڑ لیا اور تیرہ سال کی عمر میں انگریزوں کے انخلاءکے لئے نکلنے والے جلوسوں میں جوش وخروش سے شرکت کیا کرتے تھے۔اس طرح حسن البناءکے سماجی شعور کے ابتدائی برسوں کے اہم ترین واقعات میں غیر ملکی غلبہ کے خلاف مزاحمتی احتجاج اور مظاہرے وغیرہ شامل تھے۔چودہ برس کی عمر میں 1920ءمیں ٹیچرز ٹریننگ اسکول میں داخل ہو گئے پھر قاہرہ چلے گئے جہاں انہوں نے 1927ءمیں دارالعلوم سے گریجویشن کیا۔
فراغت کے بعد انہیں وزارت تعلیم کی طرف سے اسماعیلیہ کے مدرسہ امیریہ میں مدرس مقرر کیا گیا،اس وقت ان کی عمر 21سال تھی۔1933ءمیں انہیں اسماعیلیہ سے قاہرہ تبدیل کر دیا گیا اس کے بعد وہ قاہرہ ہی میں رہے۔قاہرہ میں قیام کے دوران انہیں شدید متنازعہ فضاءمیں رہنے کا براہ راست تجربہ ہوا اور اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل جس چیز کو انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ مصر کی ثقافتی مغربیت تھی جسے وہ الحاد اور بد اخلاقی قرار دیتے تھے۔1925ءمیں مصر میں سیکولر یونیورسٹی کے قیا م کی تحریک کو انہوںنے اسلام ترک لادینیت اختیار کرنے کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔
حسن البناءمعلم سے زیادہ داعی تھے،جن کی ذاتی زندگی بہت زیادہ صاف ستھری تھی،وہ شرعی احکامات کی خود سختی سے پابندی کرتے اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھی پابندی کرنے کی تلقین کرتے۔قدرت نے انہیں بڑی ہی باوقار اور مرعوب کن شخصیت عطاکی تھی۔چنانچہ وہ تنہا اٹھے مگر ایک امت کی قوت بن کر اسلام کے خزاں رسیدہ گلستان کو پانی سے سیراب کرنے کے بجائے خون سے سیراب کرنے کی سنت کو زندہ کیا۔اللہ تعالیٰ نے حسن البناءکو دعوت و اصلاح اور جہاد و نصیحت کا جو جذبہ و دیعت کیا تھا وہ زندگی کے ہر مرحلہ میں ظہور پزیر ہوتا رہا۔
شیخ حسن البناءنے عالم عرب کے ہر طبقے پر اثر ڈالا اور بیسویں صدی کی سب سے بڑی تحریک چلائی جو ”اخوان
المسلمون “ کے نام سے منسوب ہے۔
تحریک اخوان المسلمون کا قیام:1928ء
حسن البناءجب قاہرہ گئے اور دارالعلوم میں داخل ہوئے تو خارجی ماحول اور دوسری طرف داخلی احساسات نے ان کو بے چین کر دیا،جمعیت مکارم اخلاق میں رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے جو اس وقت قاہرہ کے فساد زدہ ماحول میں واحد اصلاحی انجمن تھی جو مغربی کلچر کے آگے بند باندھنے میں تقریباً ناکام رہی۔حسن البناءنے شروع میں دارالعلوم اور جامعہ الازہر کے طلبہ پر مشتمل ایک گروہ تیار کیا جو انہیں قہوہ خانوں اور پبلک اجتماعات میں درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کی طرف راغب کرتا۔لیکن کمالی انقلاب کے بعد مصر میں اباحیت اور الحاد کی جو وبا پھوٹ پڑی تھی اور جس طرح ہر پیر و جوان اس کی لپیٹ میں آ رہا تھا اس کے ساتھ یہ محدود ناتوان ”واویلا“ بے اثر تھا۔چنانچہ امام حسن البناءنے علماءاور مشائخ کو اس کام کی طرف توجہ دلانی شروع کی اور ایک جماعت کی شکل میں میدان میں اترنے پر اکسایا۔
امام حسن البناءنے قاہرہ میں قیام کے دوران شام کے ایک اسلامی مصلح محب الوطن الخطیب سے ملاقات کی جو نوجوانوں کی ایک تنظیم ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو چلانے میں بھی مدد کیا کرتے تھے۔اس مذہبی تنظیم کا قیام نومبر 1927ءمیں عمل میں آیا تھا۔امام حسن البناءکو اس ملاقات سے بڑی رہنمائی ملی،اس جماعت کے منشور میں ”مسلمانوں کو قرآن کی طرف رغبت دلانا،حقیقی اسلام اختیار کرنے کی تلقین،اسلام قانون اختیار کرنا،ماڈرن سائنسی علوم کی ترویج اور مسلم وحدت کے لئے مساعی بروئے کار لانا تھا“۔
اس منشور کے تحت” ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن“نے متعدد اسکول قائم کر رکھے تھے،نیز مسیحی مشنریاں اسلام پر جو حملے کیا کرتی تھیں ان کا بھی منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ان پروگراموں ی تفصیلات معلوم کر کے امام حسن البناءکے دل میں اپنی نئی تنظیم کے قیام کا جذبہ مزید شدت اختیار کر گیا،کیونکہ انہیں اس کے لئے خاصی رہنمائی مل گئی تھی،وہ اس کی سر گرمیوں کا بڑی توجہ سے مطالعہ کر رہے تھے تا کہ اگر وہ اس سے بہتر نہیں تو کم از کم اس کے ہم پلہ تنظیم ضرور بنا سکیں۔ان تمام پہلوﺅں سے ایسوسی ایشن ایک قابل رشک تنظیم تھی جس نے ایسا خاکہ فراہم کر دیا تھا جس پر کسی جماعت کی عمارت آسانی سے تعمیر کی جا سکتی تھی۔انہوں نے عزم کیا کہ وہ اہل مصر کو اسلام کی طرف دوبارہ لانے کے لئے دن کے وقت بچوں کو پڑھائیں گے اور لیکچروں کااہتمام کریں گے جبکہ رات کو تبلیغی پروگرام منعقد کیا کریں گے۔
مارچ 1928ءکو اسماعیلیہ کے معزز اور باشعور لوگوں کی ایک جماعت امام حسن البناءکے گھر پر جمعہ ہوئی،یہ جماعت چھ افراد پر مشتمل تھی جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
۔حافظ عبد المجید
۔احمد الحصری
۔فواد ابراہیم
۔اسماعیل عز ۵۔زکی المغربی
۔عبد الرحمن حسب اللہ
یہ لوگ کام کرنے کا عزم لے کر آئے تھے،گفتگو اور تبادلہ خیال کے بعد انہوں نے امام حسن البناءکو کام کی نگرانی،رہنمائی اور قیادت کا فرض سونپا اور اسلام اور مسلمانوں کی بقا کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کی بیعت ہوئی۔اس مختصر سی تنظیم کا نام کیا ہو؟؟؟
امام حسن البناءنے برجستہ کہا کہ ”ہم سب اخوان المسلمون ہیں“۔
یکایک یہ نام زبانوں پر آگیا اور اسی نام سے یہ جماعت متعارف ہوئی جو بعد میں عرب دنیا کی سب سے طاقتور تحریک بن گئی۔رسمی طور پر اس جماعت کے قیام کا اعلان 11اپریل1929ءمیں کیا گیا۔امام حسن البناءفرماتے ہیں:
”اخوان المسلمون کی کوششوں کا مقصد و مطلوب یہی ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل کو اسلام کی تعلیمات سے اس درجہ آشنا کر دیا جائے کہ وہ قومی زندگی کے تمام گوشوں کو اسلامی رنگ میں رنگ سکیں“۔
چنانچہ انہوںنے اس جماعت کے مقاصد کو صفحہ قرطاس پر لانے کے لئے انہی اصولوں کو مد نظر رکھا اور اختصار سے یوں بیان فرمایاکہ،
”اخوان المسلمون کا مقصد اہل مصر کو متحد کرنا پھر مسلمانوں کو قرآن و سنت کے ماتحت جمع کرنا،قومی دولت میں اضافہ کرنا اور دوسری جماعتوں اور افراد میں معاشرتی اور معاشی انصاف پیدا کرنا جہالت جیسے مرض اور عیوب کے خلاف لڑنا،وادی نیل اور پھر تمام عرب ممالک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانا اور بین الاقوامی امن و امان کے لئے کوششیں کرنا ہے“۔
ان ہی مقاصد کی روشنی میں جماعت کے مقاصد کو یوں بیان کیا۔
۔اخوان المسلمون ایک سلفی دعوت ہے۔
۔اخوان المسلمون ایک طریقہ سنت ہے۔
۔اخوان المسلمون کی حقیقت تصوف ہے۔
۔اخوان المسلمون ایک عسکری تنظیم ہے۔
۔اخوان المسلمون ایک معاشی ادارہ ہے۔
۔اخوان المسلمون ایک علمی و ثقافتی انجمن ہے۔
۔اخوان المسلمون ایک اجتماعی فکر ہے۔
۔اخوان المسلمون ایک سیاسی جماعت ہے۔
مندرجہ بالا آٹھ نکاتی مقاصد کو ملک کے ہر حصے میں پسند کیا گیا۔1937ءمیں امام حسن البناءکا تبادلہ قاہرہ ہو گیا اس وقت تک تحریک کی شاخیں مختلف شہروںاور قصبوں میں قائم ہو چکی تھیںاور اسماعیلیہ ان کا مرکز تھا۔1938ءکی بات ہے کہ جب شیخ امام حسن البناءنے شدت سے محسوس کیا کہ جماعت کو سیاسی مقاصد کے لئے ضرور استعمال کیا جائے کیونکہ
سیاسی عمل دخل کے بغیر ان کے مقاصد کا حصول ممکن نہیں جب کہ انہوںنے اسی سال جماعت کو سلفی دعوت کے نام سے موسوم کیا ۔
حوالہ کتاب:اخوان المسلمون