(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ کا قابض فوجی محاصرہ فوری طور پر ختم کیا جائے تاکہ وہاں تیزی سے پھیلتی ہوئی قحط جیسی صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔
انروا کے مطابق غزہ میں خوراک کی قیمتوں میں چالیس گنا تک اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ایجنسی کے پاس مصر کے شہر العریش میں تین ماہ کے لیے کافی امدادی سامان کا ذخیرہ موجود ہے۔
انروا کے کمشنر جنرل، فلپ لازارینی نے کہا کہ خوراک کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کے پیغامات انتہائی مایوسی اور تکلیف کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہیں روزانہ میرے بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں بچا جیسی دلخراش اپیلیں موصول ہو رہی ہیں۔
غزہ کی محصور پٹی میں اس وقت بیس لاکھ سے زائد افراد ایک ایسے شدید انسانی بحران سے گزر رہے ہیں جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ قابض اسرائیل نے دو مارچ 2025 سے غزہ کی تمام گزرگاہوں کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ خوراک، پانی، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی مکمل طور پر معطل ہے جس کے نتیجے میں پورے علاقے میں قحط اور فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
اس بحران کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام شہریوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی اوسط قیمتوں میں پانچ سو فیصد سے زیادہ کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ کچھ بنیادی چیزوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔
مثال کے طور پر:
* ایک کلوگرام آٹے کی قیمت ایک سو ستر شیکل تک پہنچ گئی ہے جو صرف ایک ہفتے میں دو سو چالیس فیصد کا اضافہ ہے۔
* ایک کلوگرام چاول ایک سو دس شیکل میں فروخت ہو رہا ہے، جو قیمت میں ایک سو پچہتر فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
* جنگ سے قبل ان اشیاء کی قیمتیں صرف چند شیکل تھیں لیکن اب یہ عام فلسطینیوں کی قوتِ خرید سے مکمل طور پر باہر ہوچکی ہیں۔
یہ معاشی بحران صرف قیمتوں میں اضافے تک محدود نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں درجنوں فلسطینی شہری بھوک کی وجہ سے شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں، بوڑھوں اور بیمار افراد کی ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق قابض صہیونی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ اس اجتماعی قحط نے نہ صرف ہزاروں جانیں لے لی ہیں بلکہ انسانی جسم اور روح کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔