(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کے قدیم ترین علاقے میں واقع باب السلسلہ کے مقام پر فلسطینیوں کی تاریخی املاک پر قبضے کا ایک نیا فیصلہ جاری کیا ہے جو مسجد اقصیٰ کے مرکزی دروازوں میں سے ایک ہے۔ یہ اقدام فلسطینی وجود، تہذیب اور تاریخ کو مٹانے کی ایک اور ناپاک کوشش ہے۔
یہ ظالمانہ فیصلہ قابض حکومت کے سابق وزیر برائے امورِ القدس مئیر بروش نے اپنے استعفے سے عین قبل کیا۔ اس فیصلے میں باب السلسلہ کے راستے پر واقع مکانات اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہےجو براہِ راست مسجد اقصیٰ کی طرف جاتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کُل کتنی املاک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے اصل مالکان کون ہیں۔ باب السلسلہ کا علاقہ ایوبی، مملوکی اور عثمانی ادوار سے فلسطینیوں کی ملکیت رہا ہے اور یہ نہ صرف فلسطینی شناخت بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ورثہ ہے۔
قابض صہیونی میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ بروش کی اچانک رخصتی سے ایک دن قبل سامنے آیا، جس کا مقصد مذہبی شدت پسند حلقوں کو خوش کرنا تھا۔
القدس گورنری نے اس فیصلے کو ایک نئی صہیونی آبادکاری کی سازش قرار دیا ہے جس کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس کے قلب میں موجود اسلامی اور تاریخی ورثے کو مٹانا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ باب السلسلہ کو نشانہ بنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ غاصب حکومت القدس کو مکمل طور پر صہیونیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ یہ فیصلہ ان گنت دیگر منصوبوں کا تسلسل ہے جن کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ گورنری نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ نافذ ہوا تو باب السلسلہ کا راستہ ایک صہیونی راہداری میں تبدیل ہو جائے گا، جس سے مسجد اقصیٰ تک رسائی شدید خطرے میں پڑ جائے گی۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نام نہاد یہودی محلہ دراصل 1968 میں انہی فلسطینی زمینوں پر قائم کیا گیا تھا جو تاریخی طور پر فلسطینیوں کی ملکیت تھیں۔ آج یہ محلہ ایک سو تیس دونم سے زائد رقبے پر پھیل چکا ہے اور اس کی توسیع النمری، غنیم، البشیٹی، الجاعونی، العلم، شرف اور برقان جیسے معزز فلسطینی خاندانوں کی زمینوں پر غیر قانونی قبضے کے ذریعے کی گئی ہے۔
القدس گورنری نے خبردار کیا ہے کہ باب السلسلہ کے بیس سے زائد نئے پلاٹوں پر قبضے کی یہ کوشش اس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت قابض اسرائیل نام نہاد یہودی محلے کو دیگر صہیونی بستیوں سے جوڑ کر قدیم شہر کی فلسطینی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے۔ یہ اقدام محض زمین پر قبضہ نہیں بلکہ فلسطینی قوم کے دل پر ایک گہرا زخم لگانے کے مترادف ہے۔