(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک اہم بیان میں صیہونی جارحیت، فلسطینی مزاحمت، اور خطے کی موجودہ صورتِ حال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں فلسطینی مزاحمتی قوتیں قابض صہیونی دشمن کے خلاف ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ لڑ رہی ہیں۔
ابو عبیدہ نے واضح کیا کہ آج چار ماہ مکمل ہو چکے ہیں جب صیہونی دشمن نے جنوری میں مزاحمت کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی، ثالثوں اور دنیا کو دھوکہ دیا اور اپنی نام نہاد فتح کے سراب میں دوبارہ سے غزہ پر نازی طرز کی جارحیت مسلط کی۔
انہوں نے کہا کہ دشمن نے ان چار مہینوں میں اپنی درندگی کا نشانہ صرف عام شہریوں اور بچوں کو بنایا اور منظم طور پر رہائشی علاقوں، محلّوں اور شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ یہ حملہ صرف زمین پر نہیں، بلکہ انسانیت پر حملہ ہے۔
ابو عبیدہ نے فلسطینی عوام اور مجاہدین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ اکیس مہینے پہاڑوں جیسے عزم اور انبیاء جیسے صبر کا استعارہ بن چکے ہیں۔ قوم نے بے مثال قربانیاں دے کر مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران قابض صیہونیوں کو صرف رسوائی اور شرمندگی نصیب ہوئی، جبکہ بہت سے عرب اور مسلمان حکمرانوں نے شرمناک طور پر خاموشی اختیار کی، البتہ چند سچے مجاہد، مظلوم اقوام اور دنیا کے انصاف پسند انسان ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے۔
ابو عبیدہ نے بتایا کہ ہم نے صیہونی دشمن کی نام نہاد فوجی کارروائی "عربات جدعون” کا مقابلہ اللہ کے بھروسے پر "حجارة داوود” جیسی مؤثر اور ایمان افروز کارروائیوں سے کیا۔ یہ حکمتِ عملی حضرت داوودؑ اور جالوت کے معرکے سے الہام لے کر ترتیب دی گئی جس میں اللہ کی مدد اور نصرت نے مجاہدین کو کامیاب بنایا۔
انہوں نے کہا کہ القسام کے مجاہدین اپنے دیگر مزاحمتی بھائیوں، خصوصاً سرايا القدس کے ساتھ مل کر دشمن کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک غیر متوازن جنگ ہے، مگر ایمان، حوصلے اور اللہ کی مدد سے مزاحمت مضبوط تر ہو رہی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صہیونی دشمن کے خلاف جنگ محض ردعمل نہیں بلکہ ایک اصولی، دینی اور قومی فریضہ ہے جس سے پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ ہم زمین کے پتھروں سے بھی لڑیں گے، اور اپنے ایمان اور جذبے سے ہر ممکن معجزہ برپا کریں گے جیسا کہ ماضی میں قلیل وسائل سے بڑی فتوحات حاصل کی گئی ہیں۔
ابو عبیدہ نے خبردار کیا کہ اگر صیہونی حکومت نے نسل کشی کی اس جنگ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسے اپنے فوجیوں اور افسران کی لاشیں اٹھانے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ابو عبیدہ نے امتِ مسلمہ کو یاد دلایا کہ "ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں، لیکن دو ارب مسلمانوں کی یہ امت اپنے فرض سے غافل ہے، جس کا حساب اللہ کے ہاں ہوگا”۔
ابو عبیدہ نے کہا کہ دشمن کو مسلسل اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنے والی عالمی طاقتیں اسے سہارا دے رہی ہیں، جب کہ مسلم دنیا کی حکومتیں اور ادارے صرف تماشائی بنے ہوئے ہیں۔”جب کہ ہمارے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، پیاس سے بلک رہے ہیں اور دوا تک کو ترس رہے ہیں”۔
انہوں نے عرب و اسلامی دنیا کی قیادت، علما، جماعتوں اور اشرافیہ کو مخاطب کرتے ہوئے سخت الفاظ میں کہاکہ تم ہمارے، یتیموں، بیواؤں، زخمیوں، مہاجرین اور شہداء کے خون کے مجرم ہو۔تم پر ہزاروں شہداء کا خون قرض ہے۔ "قیامت کے دن تم اللہ کے سامنے ہمارے مخالفین میں شامل ہوگے”۔
ابو عبیدہ نے واضح کیا کہ "یہ نازی صیہونی دشمن تم سب کی نظروں کے سامنے نسل کشی کر رہا ہے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ کوئی اسے روکنے والا نہیں۔
ہم کسی کو بھی اس خونِ ناحق سے بری نہیں سمجھتے ہر شخص، ہر رہنما، ہر ادارہ جو کچھ کر سکتا ہے لیکن خاموش ہے، وہ اس جرم میں شریک ہے۔
ابو عبیدہ نے مزید کہاکہ خدا کی قسم، ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دشمن ہماری امت کی توہین کر رہا ہے، اس کی حرمت پامال کر رہا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ دشمن اندر سے کتنا بزدل، کمزور اور ذلیل ہے لیکن چونکہ ہم نے اپنی عزتِ اسلامی اور حمیتِ عربی کو کھو دیا ہے، اسی لیے وہ ہم پر مسلط ہو گیا ہے۔
انہوں نے قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "تم ان کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر خوفناک ہو، اگر امتِ مسلمہ عزت و غیرت کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو تو دشمن کبھی غالب نہ آ سکے”۔”حسبنا الله ونعم الوكيل” (اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔)
ابو عبیدہ نے امتِ مسلمہ کو جھنجھوڑتے ہوئے سوال کیا:کہ "کیا دو ارب کی امت اتنی بے بس ہو گئی ہے کہ وہ محصور غزہ کے بچوں، عورتوں اور بیماروں تک کھانا، پانی اور دوا بھی نہیں پہنچا سکتی؟ کیا وہ اس قتلِ عام کو روکنے سے قاصر ہے، جو صرف اس لیے ہو رہا ہے تاکہ اس سرزمین پر ایک ایسی صیہونی سلطنت قائم کی جائے جس کا دارالحکومت وہ شہر ہے جو کبھی تمہارا قبلہ تھا اور جہاں سے تمہارے نبیﷺ نے معراج کا سفر کیا؟” انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاپھر جو سوئے، ان کی آنکھیں نہ جاگیں اور نہ جاگیں گی۔
انہوں نے یمن کے عوام کی تعریف کرتے ہوئے کہا، "یمن کے لوگوں نے اپنے عمل، عزم اور فلسطین کے لیے واضح مؤقف سے ساری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ان کی مزاحمت دشمن کے خلاف ایک مؤثر محاذ بن چکی ہے۔ انہوں نے ان حکمرانوں، جماعتوں اور نظاموں پر حجت تمام کر دی ہے جو صرف نعرے لگاتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کچھ طاقتور عرب اور مسلم حکومتیں آج ظلم کی نمائندہ اور قوموں کو فریب دینے والے چہرے بن چکی ہیں۔
ابو عبیدہ نے ان تمام آزاد انسانوں کو سلام پیش کیا جو ہر خطرے کے باوجود فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور منافقین کی سازشوں کے باوجود ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "وہ جانتے ہیں کہ حق کی آواز، اگرچہ کمزور ہو، مگر طاقتور ہوتی ہے۔”
انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے کہا، "ہم نے بارہا دشمن کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں ایک جامع معاہدے کی پیشکش کی، جس کے تحت ہم دشمن کے تمام قیدیوں کو ایک ہی بار رہا کرنے پر آمادہ تھے، مگر جنگی مجرم نیتن یاہو اور اس کی نازی ذہنیت رکھنے والی حکومت نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ دشمن ماضی کی بھیانک تاریخ دہرانا چاہتا ہے اور اس کی بربریت نازی ازم کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
ابو عبیدہ نے کہا کہ صیہونی دشمن نے برسوں تک "یہود دشمنی” کی جھوٹی مہم سے فائدہ اٹھایا لیکن اب یہ مہم ایک کھلی رسوائی بن چکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کی نفرت صیہونیوں کے عقیدے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے جرائم اور انسانیت دشمن اقدامات کی وجہ سے ہے۔
آخر میں، انہوں نے ان تمام افراد کو فوری توبہ اور قوم کی صفوں میں واپسی کی دعوت دی جو دشمن کے لیے کام کر رہے ہیں، اور خبردار کیا کہ بصورتِ دیگر ان کا انجام عبرتناک ہوگا۔ انہوں نے ان عظیم فلسطینی خاندانوں اور قبائل کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان ایجنٹوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ کسی بھی غدار کی نمائندگی نہیں کرتے۔