(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) عالمی فوجداری عدالت نے ایک بار پھر انصاف کو قائم رکھتے ہوئی فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے فیصلے کوبر قراررکھنے کا اعلان کیا۔ بدھ کے روز عالمی عدالت کی ابتدائی شاخ نے قابض اسرائیل کی جانب سے دائر کردہ دونوں درخواستیں مسترد کر دیں جن میں اس نے بنجمن نیتن یاھو اور سابق جنگی وزیر یوآف گالانٹ کے خلاف جاری وارنٹ گرفتاری ختم کرنے اور فلسطین کے بارے میں جاری تحقیقات کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
عالمی عدالت نے قابض حکومت کے ان دلائل کو رد کر دیا جن کی بنیاد پر اس نے عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ دلائل روم اسٹیچوٹ کے تحت قانونی شرائط کو پورا نہیں کرتے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تحقیقات کو معطل کرنے کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب متعلقہ ریاست مقدمے کی قابلِ قبولیت کو چیلنج کرے۔ قابض اسرائیل نے ایسا کوئی چیلنج پیش نہیں کیا اس لیے اس کی دونوں درخواستیں نہ صرف تکنیکی بنیادوں پر بلکہ قانونی لحاظ سے بھی مسترد کی جاتی ہیں۔
یاد رہے کہ عالمی عدالت نے پانچ فروری سنہ2021ء کو فلسطین کو روم اسٹیچوٹ کا فریق ریاست تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ عدالت کا دائرہ اختیار ان تمام فلسطینی علاقوں پر لاگو ہوتا ہے جو سنہ1967ء سے قابض اسرائیل کے تسلط میں ہیں جن میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی شامل ہیں۔
مارچ سنہ2021ء میں عالمی عدالت کے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے باقاعدہ طور پر فلسطینی علاقوں میں ہونے والے جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ قابض اسرائیل نے ستمبر سنہ2024ء میں ان تحقیقات کی مخالفت کی تاہم عدالت نے اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے ایک بار پھر فلسطینی سالمیت پر اپنے قانونی اختیار کو تسلیم کیا۔
پھر اکیس نومبر سنہ2024ء کو عدالت نے تاریخ رقم کرتے ہوئے بنجمن نیتن یاھو اور یوآف گالانٹ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جن میں انہیں غزہ میں بے گناہ فلسطینی شہریوں کے خلاف سنگین بین الاقوامی جرائم کے ارتکاب میں ملوث قرار دیا گیا۔ یہ اقدام پوری دنیا میں ہلچل کا باعث بنا اور ردعمل کے طور پر کہیں خوشی کی لہریں دوڑیں،کہیں منافقانہ مذمتیں سامنے آئیں۔
یہ فیصلہ فلسطینیوں کی امیدوں کو تازگی بخشتا ہے اور ان کے دکھوں پر مرہم رکھتا ہے۔
پوری دنیا کے باضمیر انسانوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ غزہ کی مٹی میں دفن ہونے والے معصوم بچوں، ماؤں، بزرگوں اور نوجوانوں کے حق میں آواز بلند کی جا سکتی ہے، اور دنیا کی بڑی عدالتیں اگر چاہیں تو مظلوم کی فریاد سن بھی سکتی ہیں اور انصاف کا بول بالا بھی کر سکتی ہیں۔