(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض اسرائیل کی سیاسی فضا میں بدھ کی شام اس وقت شدید ہلچل مچ گئی جب مذہبی جماعت شاس نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قائم حکومت سے باضابطہ طور پر علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ فوجی بھرتی کے متنازع قانون، خاص طور پر حریدی(انتہائی قدامت پسند) یہودیوں کی جبری بھرتی کے خلاف کیا گیا ہے۔
قابض اسرائیل کے چینل بارہ کے مطابق شاس پارٹی کی اعلیٰ قیادت (جسے مجلس حکمائے تورات کہا جاتا ہے) نے نیتن یاہو کی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، پارٹی فی الحال حکومتی اتحاد سے مکمل طور پر الگ نہیں ہو رہی اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں کی حمایت سے بھی گریز کرے گی تاکہ نیتن یاہو کو حریدی یہودیوں کو جبری فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے قانون سازی کا موقع مل سکے۔
اگر کنیسٹ (صہیونی پارلیمنٹ) میں گیارہ نشستیں رکھنے والی شاس پارٹی حکومت سے مکمل طور پر دستبردار ہو جاتی ہے تو دسمبر 2022 سے قائم ظالم صہیونی حکومتی اتحاد ٹوٹ سکتا ہے۔ اس صورت میں قابض اسرائیل کی حکومت اپنی عددی اکثریت کھو دے گی اور ایک اقلیتی حکومت میں تبدیل ہو جائے گی۔ اسی تناظر میں اپوزیشن لیڈر یائیر لپید نے کہا کہ آج سے قابض اسرائیل میں ایک اقلیتی حکومت ہے جو قانونی اور اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔
صہیونی اخبار "یدیعوت احرنوت” کے مطابق اگر شاس حکومت سے الگ ہوتی ہے تو داخلہ، صحت، سماجی بہبود اور مذہبی امور کے وزراء بھی مستعفی ہو سکتے ہیں، جس سے قابض حکومت مزید عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔
یہ فیصلہ حریدی یہودیوں کی جانب سے جبری فوجی بھرتی کے خلاف جاری شدید احتجاج کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہ مظاہرے اس وقت مزید شدت اختیار کر گئے جب پچیس جون 2024 کو قابض ریاست کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حریدی یہودیوں کو فوج میں بھرتی سے مستثنیٰ نہیں رکھا جا سکتا اور ان کے مذہبی اداروں کی سرکاری مالی امداد پر پابندی عائد کر دی گئی۔
قابض اسرائیل کی کل آبادی کا تقریباً تیرہ فیصد حریدی یہودیوں پر مشتمل ہے، جو خود کو تورات کے مطالعے کے لیے وقف سمجھتے ہیں اور فوجی خدمات کو اپنے عقیدے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔ یہ سیاسی بحران قابض اسرائیل کے اندرونی خلفشار کو ظاہر کرتا ہے جو نہ صرف غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے بلکہ اب داخلی سطح پر بھی مذہبی، نسلی اور عدالتی تنازعات سے دوچار ہے۔