(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ بیانات کو ان کی اصل نیتوں کا عکاس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دانستہ طور پر قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے تاکہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی روکی جا سکے اور غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں کو جاری رکھا جا سکے۔
حماس نے وضاحت کی کہ اس نے پہلے ہی ایک متوازن اور جامع معاہدے کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت تمام قیدیوں کی بیک وقت رہائی، قابض فوج کا مکمل انخلا، بمباری کا مستقل خاتمہ، اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی شامل تھی۔ نیتن یاہو نے اس اہم پیشکش کو مسترد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی تباہی اور انسانی بحران کو طول دینا چاہتا ہے۔
حماس نے تاکید کی کہ وہ اب بھی ایک ذمہ دار فریق کے طور پر مذاکراتی عمل میں شامل ہے اور ایسے معاہدے کی کوشش کر رہی ہے جس سے بمباری رکے، صہیونی فوج کا انخلا ہو، امدادی سامان آزادانہ طور پر داخل ہو، اور فلسطینی عوام کو تعمیر نو کے مواقع میسر آئیں۔ ہم قیدیوں کے باہمی تبادلے پر بھی آمادہ ہیں تاکہ فلسطینی عوام عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔
اسی دوران صہیونی اخبار ہارٹزنے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نیتن یاہو نے غاصب قیدیوں کے اہل خانہ کو بتایا ہے کہ اگر حماس کے ساتھ ساٹھ دن کی جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا ہے تو اس مدت کے اختتام پر ہی مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔
ایک اور قابض میڈیا آؤٹلیٹ نے تصدیق کی ہے کہ نیتن یاہو نے قیدیوں کے خاندانوں کو یہ بھی بتایا ہے کہ کسی بھی معاہدے کی صورت میں رہا کیے جانے والے قیدیوں کے نام حماس کی طرف سے طے کیے جائیں گے۔ اس انکشاف پر صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ آخر فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہو گا کہ کن افراد کو رہا کیا جائے گا۔
حماس نے اپنے بیان کے اختتام پر ایک بار پھر اپنی پالیسی واضح کی کہ وہ فلسطینی عوام کی آزادی، عزت اور بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہےجبکہ قابض صہیونی قیادت صرف تشدد اور تباہی کی سیاست پر گامزن ہے۔