(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ)امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے ایک بار پھرقابض اسرائیل کی جارحانہ جنگی حکمت عملیوں اور اس کے رہنما بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کی ہے، کہتے ہیں کہ کانگریس کے کچھ ارکان نے ایک جنگی جرائم کے مرتکب شخص کا پرجوش استقبال کیا، جو نہ صرف شرمناک بلکہ انسانیت کی تذلیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سےقابض اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد روکنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ کانگریس میں ایسے افراد موجود ہیں جو نیتن یاہو جیسے مجرم کا استقبال فخر سے کر رہے ہیں، حالانکہ وہ جنگی جرائم کے باعث عالمی عدالتِ انصاف کو مطلوب ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو واشنگٹن میں اہم ملاقاتوں میں مصروف ہے، جہاں اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 24 گھنٹوں کے دوران دوسری ملاقات کی۔ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کے دوران یہ نیتن یاہو کا امریکہ کا تیسرا دورہ ہے۔
نیتن یاھو نے اس دورے کے دوران امریکی ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن اور کانگریس کے نائب صدر سے بھی ملاقات کی، جس کا مقصد غزہ پر جاری جارحیت کے لیے سیاسی اور عسکری حمایت حاصل کرنا ہے۔
بدھ کی صبح نیتن یاھو نے اعلان کیا کہ اس نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی پر گفتگو کی اور ایک بار پھر اعلان کیا کہ وہ حماس کی تمام عسکری اور انتظامی صلاحیتوں کو مکمل طور پر "ختم” کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
نیتن یاھو، جو غزہ میں انسانیت سوز جرائم کے الزام میں عالمی عدالت کو مطلوب ہے، نے ایک پیغام میں دعویٰ کیا کہ اس نے ٹرمپ کے ساتھ "ایران پر بڑی کامیابی” پر بھی بات کی اور اس کے ممکنہ اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔
ادھر سینیٹر برنی سینڈرز نے دو روز قبل ایک بیان میں قابض اسرائیل کی فلسطین کے خلاف جاری جنگ کو "وحشیانہ اور غیر اخلاقی” قرار دیا تھا۔
انہوں نے ایک امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز” کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے، جس کا عنوان تھا "ڈیموکریٹس کو سمجھنا ہوگا کہ اسرائیل پر رائے تیزی سے بدل رہی ہے”، کہا کہ امریکی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ نیتن یاھو کی فلسطینی عوام کے خلاف جنگ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
سینڈرز نے ڈیموکریٹک قیادت پر زور دیا کہ وہ امریکہ میں صہیونی لابی گروپ "آئیپیک” کے خلاف جرات کے ساتھ کھڑے ہوں اور کہیں کہ "اب مزید فوجی امداد نہیں۔”
یاد رہے کہ سینڈرز خود یہودی نژاد ہیں اور ماضی میں کچھ وقت فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر ایک صہیونی بستی میں بھی گزار چکے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ غزہ پر اسرائیلی درندگی کے سب سے بڑے ناقدین میں شامل ہیں اور قابض ریاست کو دی جانے والی امریکی امداد کے سخت مخالف ہیں۔
قابض اسرائیل نے امریکہ کی مکمل حمایت کے ساتھ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں ایسی نسل کشی کا آغاز کیا ہے جس نے دنیا بھر کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس ظلم میں اب تک ایک لاکھ چون ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے، جب کہ دس ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔