(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک کے ڈائریکٹر آف آپریشنز کارل سکاو نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں صورت حال اب تک کی بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2023 کو قابض اسرائیل کی طرف سے شروع کی گئی نسل کشی کے بعد سے انسانی امداد پر جس طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں وہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔
کارل سکاو نے اپنے غزہ کے چوتھے دورہ کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر ایک سلسلہ وار پیغام میں لکھا کہ میں غزہ کے حالیہ دورے سے واپس آیا ہوں اور میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ حالات پہلے سے کہیں زیادہ بدتر ہو چکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج غزہ میں انسانوں کی بنیادی ضروریات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہیں لیکن ہماری امدادی سرگرمیوں پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھیں۔
اس المناک بیان میں انہوں نے لکھا کہ غزہ میں لوگ صرف خوراک کی تلاش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک کی ٹیمیں بڑی جانفشانی سے غزہ کے متاثرہ علاقوں میں امدادی قافلوں کے ذریعے خوراک پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن یہ قافلے اکثر گولہ باری کی زد میں آ جاتے ہیں۔
کارل سکاو کا کہنا تھا کہ ہم ایندھن، پرزہ جات اور مواصلاتی آلات کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ ہمارے مقامی عملے کے افراد بھی انہی تکالیف، خطرات اور بھوک کا سامنا کر رہے ہیں جو غزہ کے عام شہری سہہ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خوراک اور امداد کی فراہمی کے لیے ضروری اشیاء ہمارے پاس موجود ہیں۔ ہم تیار ہیں بس راہداریاں کھولنے کی اجازت دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ جنگ بندی کے دوران، جو اۃنیس جنوری سے یکم مارچ 2025 تک جاری رہی ہم نے بیالیس دنوں میں آٹھ ہزار امدادی ٹرک غزہ میں داخل کیے۔ اگر دوبارہ کوئی جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے تو ہم یہ کام پھر کر سکتے ہیں۔
کارل سکاو نے زور دے کر کہا کہ امداد کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ تمام راستے اور داخلے کے مقامات کھولے جائیں اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جنگ بندی صرف وقتی ریلیف نہیں بلکہ ایک پائیدار امن کی جانب پہلا قدم ہونا چاہیے۔
قابض اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ محاصرہ اور منظم بھوک کی یہ پالیسی، انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی کے بدترین نمونوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کی آنکھوں کے سامنے معصوم فلسطینی بچے، عورتیں اور بزرگ صرف کھانے کی تلاش میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔ یہ درندگی خاموش تماشائی بنے انسانیت کے عالمی دعویداروں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔