عالمی ادارۂ صحت نے غزہ سے تئیس مریض منتقل کیے، ہزاروں کی زندگیاں خطرے میں
ادارے نے اپنے بیان میں بتایا کہ مریضوں کو نکالنے والے قافلے پر قابض صہیونی فضائیہ نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایمبولینسوں اور دیگر گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بدھ کے روز غزہ سے تئیس شدید بیمار مریضوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ ان میں اُنیس بیمار بچے اور ان کےاُنتالیس ساتھی اردن روانہ ہوئے جبکہ چار دیگر مریضوں اور ان کے ہمراہ ساتھ افراد کو ترکیہ لے جایا گیا۔
ادارے نے اپنے بیان میں بتایا کہ مریضوں کو نکالنے والے قافلے پر قابض صہیونی فضائیہ نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایمبولینسوں اور دیگر گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ اس وحشیانہ کارروائی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ قابض اسرائیل نہ صرف ہسپتالوں اور طبی عملے کو نشانہ بنا رہا ہے بلکہ مریضوں کو بھی زندگی کی آخری امید سے محروم کر رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت بھی غزہ میں دس ہزار سے زائد مریض شدید حالت میں طبی انخلاء کے منتظر ہیں۔ یہ سب ایسے مریض ہیں جن کی زندگی ہر لمحہ خطرے میں ہے لیکن قابض اسرائیل کی بندشیں، محاصرہ اور سفری رکاوٹیں ان کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہیں۔
ناصر میڈیکل کمپلیکس میں بچوں اور زچگی کے شعبے کے سربراہ اور زخمیوں کے انخلاء کے نگران ڈاکٹر احمد الفرا نے پہلے ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ غزہ میں پانچ سو چھیالیس مریض اس امید میں دم توڑ چکے کہ شاید کسی دن انہیں باہر جا کر علاج کا موقع مل جائے گا لیکن قابض صہیونی ریاست نے نہ صرف ان کی زندگی چھینی بلکہ ان کا حقِ علاج بھی سلب کر لیا۔
ڈاکٹر الفرا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری طور پر غزہ کے تمام راستے نہ کھولے گئے اور مریضوں کو بیرون ملک علاج کی سہولت فراہم نہ کی گئی تو شہداء کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جنگ کے آغاز سے ہی قابض اسرائیل نے غزہ کے مریضوں اور زخمیوں کے سفر پر سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ان ظالمانہ اقدامات میں مارچ کے مہینے میں تمام گزرگاہوں کی بندش نے شدت پیدا کر دی جب دو مارچ کو راستے بند کیے گئے اور اٹھارہ مارچ کو ایک بار پھر بھرپور جنگ شروع کر دی گئی۔
غزہ کا دنیا سے واحد زمینی رابطہ رفح کا زمینی راستہ تھا جو مصر کی سرحد سے ملتا ہے۔ تاہم، چھ مئی 2024 کو جب قابض فوج نے شہر رفح پر حملہ کیا اور اسے مکمل طور پر قبضے میں لے لیا تو اس کے بعد سے یہ راستہ مکمل طور پر تباہ اور بند کر دیا گیا ہے۔ اس بندش نے لاکھوں فلسطینیوں کو ایک کھلی جیل میں قید کر دیا ہےجہاں بیمار اور زخمی اپنی باری کے انتظار میں دم توڑ رہے ہیں۔
قابض اسرائیل کے یہ اقدامات نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ عالمی ضمیر کے لیے ایک چبھتا ہوا سوال ہیں کہ کیا غزہ میں زندگی گزارنا ایک جرم بن چکا ہے؟