(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اقوامِ متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود اور بحالی کی ایجنسی "انروا” کے کمشنر جنرل، فلیپ لازارینی نے شدید الفاظ میں کہا ہے کہ نام نہاد "غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” درحقیقت فلسطینی عوام کے لیے کسی ریلیف کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کے لیے بھوک، گولیوں اور اذیت کا پیغام بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینکڑوں غیر سرکاری انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس مجرمانہ فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
لازارینی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ایک سو تیس سے زائد انسانی تنظیموں نے اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں ایک متحدہ، بین الاقوامی قانون پر مبنی امدادی نظام کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں "انروا” بھی شامل ہو تاکہ انسانی امداد مؤثر انداز میں فلسطینیوں تک پہنچائی جا سکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ درجنوں انسانی تنظیمیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نام نہاد غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن صرف اور صرف بھوک اور گولیوں کے سوا کچھ نہیں دیتی اور یہ فاؤنڈیشن فلسطینیوں کی زندگیوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
فلیپ لازارینی نے بتایا کہ جب سے یہ منصوبہ ستائیس مئی 2025ء کو شروع ہوا ہے کم از کم پانچ سو بھوکے فلسطینی شہید اور تقریباً چار ہزار شدید زخمی ہو چکے ہیں جو اپنی زندگی بچانے کے لیے غذا کے حصول کی جدوجہد کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ یہ منصوبہ اقوامِ متحدہ یا کسی بین الاقوامی انسانی تنظیم کے دائرۂ اختیار سے باہر رہ کر چلایا جا رہا ہے۔ درحقیقت غاصب اسرائیل اور امریکہ مل کر اس فاؤنڈیشن کے ذریعے انتہائی محدود امداد کی تقسیم کا بہانہ بنا کر فلسطینیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہے ہیں۔ قابض صہیونی فوج امداد کے انتظار میں کھڑے معصوم فلسطینیوں پر بمباری کرتی ہے اور انہیں زندہ رہنے یا گولی کھانے کے درمیان انتخاب پر مجبور کرتی ہے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق جب سے مئی کے آخر میں ان امداد کی تقسیم کےمراکز کو نافذ کیا گیا ہے تب سے اب تک چھ سو سے زائد فلسطینی شہید، چار ہزار دو سو سولہ زخمی اور اُنتالیس لاپتہ ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ فاؤنڈیشن کسی بھی طور پر انسانی ہمدردی کا ذریعہ نہیں بلکہ صہیونی فوج کی طرف سے فلسطینی عوام کے لیے موت کا جھل ہے۔
قابض اسرائیل نے امریکہ کی کھلی حمایت کے سائے میں ساتھ اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی میں جو بدترین نسل کشی شروع کی ہے وہ اب بھی جاری ہے۔ اس میں منظم قتل و غارت، اجتماعی فاقے، عمارتوں کی تباہی اور جبری ہجرت شامل ہے اور یہ سب عالمی عدالت انصاف کے احکامات اور عالمی برادری کی اپیلوں کو روندتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
اس انسانی المیے میں اب تک تقریباً ایک لاکھ نوے ہزار فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ قحط سالی نے سینکڑوں معصوم بچوں سمیت بے شمار جانیں نگل لی ہیں۔ پورا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔