(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) القدس گورنری نے ایک نہایت پریشان کن بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قابض صہیونی حکومت مقبوضہ بیت المقدس کے قلب سے فلسطینی شناخت کو منظم طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو کہ ایک انتہائی سنگین اور خطرناک عمل ہے۔
بیان میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ جون 2025 میں، قابض اسرائیلی عدالتوں نے سلوان کے بطن الھوی علاقے میں مقیم القدس کے خاندانوں کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں کو مسترد کر دیا۔ ان خاندانوں نے اپنی جبری بے دخلی کے خلاف قانونی جنگ لڑی تھی، لیکن عدالت نے استعماری تنظیم عطیرت کوہانیم کے حق میں فیصلہ دے کر فلسطینیوں کی بے دخلی کی راہ ہموار کر دی۔
محافظہ القدس نے وضاحت کی کہ یہ فیصلے کوئی تازہ پیش رفت نہیں بلکہ 2015 سے جاری ایک عدالتی مہم کا تسلسل ہیں، جس کے تحت چوراسی سے زائد فلسطینی خاندانوں، یعنی تقریباًساتھ سوافراد کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
قابض عدالتوں نے ان فیصلوں کی بنیاد ایک جھوٹے دعوے پر رکھی ہے کہ یہ زمینیں 1881 میں یمنی یہودیوں کی ملکیت تھیں۔ اسی بےبنیاد دعوے کو جواز بنا کر استعماری تنظیمیں بالخصوص عطیرت کوہانیم درجنوں دیگر مقدسی خاندانوں کو عدالتی تنازعات میں گھسیٹ رہی ہیں۔ ان کے ارادے واضح ہیں کہ مقدسیوں کو بے دخل کر کے علاقے کی آبادیاتی اور تاریخی شناخت کو صہیونی شکل دی جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ تمام دعوے 1970 کے اسرائیلی قانون کے تحت کیے جا رہے ہیں جو صہیونیوں کو 1948 سے پہلے کی مشتبہ جائیدادیں واپس لینے کی اجازت دیتا ہے لیکن فلسطینیوں کو اس حق سے مکمل طور پر محروم رکھا گیا ہے۔ یہ انصاف نہیں بلکہ نسلی امتیاز اور نسل کشی کو قانونی جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
القدس گورنری نے اس پورے عمل کو ایک مکمل استعماری نظام قرار دیا ہے جو سیاسی اور نوآبادیاتی مقاصد کے حصول کے لیے عدالتی نظام کو استعمال کرتا ہے۔ قابض اسرائیل کی سپریم کورٹ نے اگرچہ تسلیم کیا کہ ان قانونی تشریحات میں کئی خامیاں ہیں اس کے باوجود فلسطینیوں کی اپیلیں مسترد کر دی گئیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عدالتیں انصاف کے بجائے صہیونی استعماری اہداف کی محافظ ہیں۔
القدس گورنری نے سلوان کو قابض اسرائیل کے اس خطرناک منصوبے کا بنیادی ہدف قرار دیا ہے، جس کے تحت وہ مسجد اقصیٰ اور اس کے گرد و نواح کے عرب محلوں کو ختم کر کے ایک نام نہاد صہیونی طاس قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ عمل بین الاقوامی انسانی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشنز کے مطابق جبری بے دخلی، جائیدادوں پر قبضہ، اور مقبوضہ علاقوں میں آبادی کی منتقلی جنگی جرائم کے تحت آتے ہیں۔ ان جرائم پر سزا ہونی چاہیے، لیکن عالمی برادری کی خاموشی اور امریکہ کی مسلسل صہیونی حکومت کے لیے غیر مشروط حمایت نے ان مظالم کو مزید شدت دی ہے۔
محافظہ القدس نے دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں، قانونی اداروں اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری اور عملی اقدامات کریں تاکہ نہ صرف ان جبری بے دخلیوں کو روکا جا سکے بلکہ قابض اسرائیل کو اس کے جنگی جرائم پر جوابدہ بھی ٹھہرایا جا سکے۔
گورنری نے اس بات پر زور دیا کہ القدس کے باشندوں کی قانونی، سیاسی، اور زمینی سطح پر بھرپور مدد کی جائے تاکہ وہ صہیونی قبضے اور نسل کشی کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنے گھروں، اپنی سرزمین، اور اپنے مقدس مقامات کا دفاع جاری رکھ سکیں۔
واضح رہے کہ سلوان کا علاقہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی کونے سے محض تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اسی وجہ سے یہ علاقے قابض اسرائیل کی جانب سے صہیونیت مسلط کرنے کے براہ راست نشانے پر ہیں۔
تقریباً ساٹھ ہزار فلسطینی باشندوں پر مشتمل یہ علاقہ آج ایک شدید اور خطرناک سازش کا شکار ہے۔ البستان، وادی حلوہ، وادی یاصول، اور عین اللوزہ جیسے محلے اب صہیونی قبضے کے گھیرے میں آ چکے ہیں، جہاں العاد جیسی استعماری تنظیمیں براہ راست نگرانی کر رہی ہیں۔
یہ تنظیم نہ صرف جھوٹ پر مبنی آثار قدیمہ کی کھدائیاں کر رہی ہے بلکہ ان کے ذریعے پورے علاقے کی تہذیبی و تاریخی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہاں کبھی فلسطینی وجود تھا ہی نہیں۔