سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو ایک بے حس اور جانبدارانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے جو فلسطینیوں کی اذیتوں کو چھپانے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی” نے ایک انتہائی اہم اور انسانیت سوز حقائق پر مبنی دستاویزی فلم "غزہ: ڈاکٹروں پر حملے” کو نشر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ادارتی غیر جانبداری کے معیار کی آڑ میں کیا گیا، جس نے عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس فیصلے کو ایک بے حس اور جانبدارانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے جو فلسطینیوں کی اذیتوں کو چھپانے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
یہ فلم جسے "غزہ: آگ کے درمیان طبی عملہ” کے عنوان سے بھی جانا جاتا ہے، آزاد پروڈکشن کمپنی "بیسمنٹ فلمز” نے تیار کی تھی۔ کئی مہینوں سے یہ فلم بی بی سی کے ادارتی جائزے کے مراحل میں تھی تاہم بیس جون 2025 کو بی بی سی نے باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ یہ فلم نشر نہیں کرے گا۔
"بی بی سی”جو متعدد بار اپنی خبروں میں قابض اسرائیل کے بیانیے کو تقویت دینے کے الزامات کا سامنا کر چکی ہے انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ فلم "ایسا تاثر دے سکتی ہے جو ادارے کے ادارتی معیار سے ہم آہنگ نہیں۔ فلم کے نشر نہ کرنے کے ساتھ ادارے نے اس کی نشر و اشاعت کے تمام حقوق واپس پروڈیوسر کے سپرد کر دیے تاکہ وہ اسے کسی اور پلیٹ فارم پر جاری کر سکیں۔
"بی بی سی” کے اس اقدام پر دنیا بھر کے باشعور انسانوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ کسی نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ "معذرت اگر ہم حقیقت دکھائیں گے تو اسرائیل کے حمایتی ناراض ہو جائیں گے۔ اس لیے فلم روک دی گئی!” ایک اور صارفہ نے لکھا کہ "بی بی سی خود کو بے زبانوں کی آواز کہتی ہے، مگر جب غزہ کے زخمی طبی عملے کی داستان سنانے کی باری آئی تو اس نے زبان بند کر لی!”۔
برطانوی لکھاری یاسمین علی بہائی نے بھی بی بی سی کے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "میں پہلے ہی بی بی سی کے فلسطینیوں کے خلاف کھلے تعصب پر لکھ چکی ہوں۔ آج یہ ثابت ہو گیا کہ ادارہ نہ صرف تعصب رکھتا ہے بلکہ غیر اخلاقی حد تک گر چکا ہے۔ ایک فلم جو فلسطینی ڈاکٹروں کے قتل عام کو دکھاتی ہے اسے نشر سے روکنا کسی طور قابل قبول نہیں۔
ایک اور آواز نے سوال اٹھایا کہ "بی بی سی، ہم خود کیوں نہیں فیصلہ کر سکتے کہ غزہ : ڈاکٹروں پر حملے نامی فلم سچ دکھاتی ہے یا نہیں؟ آپ ہمیں حقیقت سے کیوں محروم کر رہے ہیں؟۔
یہ تنازع ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب مغربی میڈیا پر پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کی جانبدارانہ کوریج پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ ساتھ اکتوبر 2023 سے جاری صہیونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے دوران میڈیا پر یہ الزام بارہا لگایا جا رہا ہے کہ وہ فلسطینی بیانیے کو دبانے میں کردار ادا کر رہا ہے اور غزہ کے انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو نظر انداز کر رہا ہے۔
یاد رہے یہ پہلا موقع نہیں کہ "بی بی سی” نے فلسطینی مظلوموں کی کہانی دبائی ہو۔ فروری 2025 میں بھی "غزہ: ایک جنگی علاقے میں کیسے زندہ رہا جائے؟” کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم کو اپنی آئی پلیئر سروس سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس فلم میں غزہ کے بچوں کی وہ تکلیف دہ داستان دکھائی گئی تھی جو نسل کشی کے سائے تلے اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ اس فلم کو اس لیے ہٹایا گیا کہ اس کے مرکزی راوی، محض تیرہ سالہ بچہ عبد اللہ فلسطینی تنظیم حماس کے ایک وزیر کا بیٹا تھا۔
قابض صہیونی حکومت نے ساتھ اکتوبر 2024 سے امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ غزہ پر ظلم کی ایسی تاریخ رقم کی ہے جس میں اب تک ایک لاکھ ستاسی ہزار سے زائد شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ گیارہ ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جبکہ ہزاروں بچے، عورتیں اور بزرگ قحط، بیماری اور بمباری کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر کھلے آسمان تلے اذیت ناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔