قابض اسرائیل نے گزشتہ مہینوں میں جنوبی شام کے کئی دیہات میں اپنی فوجی کارروائیاں تیز کر دی ہیں خاص طور پر ان علاقوں میں جو قابض گولان کی سرحد سے متصل ہیں۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) منگل کے روز قابض صہیونی فوج نے ایک اور خونریز کارروائی کرتے ہوئے وسطی غزہ کے البریج پناہ گزین کیمپ میں ایک رہائشی گھر کو جنگی طیاروں سے نشانہ بنایا۔ اس وحشیانہ حملے کے نتیجے میں کم از کم آٹھ بے گناہ فلسطینی شہید، جبکہ چودہ دیگر شدید زخمی ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ یہ حملہ کیمپ کے علاقے بلاک دس میں کیا گیا جہاں ایک گھر کو براہ راست بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ آس پاس کی عمارتیں بھی لرز اٹھیں اور نشانہ بننے والا گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
النصیرات کے علاقے میں واقع "العودہ ہسپتال” نے تصدیق کی ہے کہ منگل کی صبح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں آٹھ شہداء اور چودہ زخمیوں کو لایا گیا، جن میں نو بچے شامل تھے۔ یہ تمام زخمی اور شہداء قابض فضائیہ کے اُس سفاک فضائی حملے کا نشانہ بنے جو بلا امتیاز شہری آبادی پر کیا گیا۔
قابض صہیونی ریاست کی یہ وحشیانہ کارروائیاں آج اپنے چھ اکسویں روز میں داخل ہو چکی ہیں۔ اس تمام عرصے میں غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری، ناکہ بندی، اور انسانی امداد کی بندش جاری رہی۔
غزہ میں نہ دوا ہے، نہ غذا، نہ پانی۔ دنیا کی نظروں کے سامنے فلسطینیوں کو بھوک، پیاس، بیماری، اور بموں کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔
قابض ریاست غزہ میں موجود شہریوں کے گھروں، ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گاہوں کو بھی نہیں بخش رہی۔ ان حملوں کا واحد مقصد فلسطینی وجود کو مٹانا ہے جس میں صہیونی حکومت کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
اسی دوران آج ہی کے روز فلسطینی وزارت ِصحت نے اعلان کیا کہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران غزہ کے ہسپتالوں میں مزید اکسٹھ شہداء کو لایا گیا۔ ان میں سے چھ شہداء کی لاشیں ملبے سے نکالی گئیں۔ جبکہ تین سو ستانوے افراد زخمی ہوئے، جن میں کئی کی حالت نازک ہے۔
یہ اعداد و شمار محض نمبرز نہیں، یہ ان بچوں کی چیخیں ہیں، جنہیں ماں کی گود میں ہی موت نے آ گھیرا۔ یہ ان ماؤں کی آہیں ہیں، جو اپنے لخت جگر کو ملبے سے نکالتی ہیں اور یہ ایک پوری قوم کی پکار ہے، جو ظلم کے اندھیروں میں بھی حوصلے کے چراغ روشن کیے بیٹھی ہے۔
یہ نسل کشی ہے، یہ انسانیت کے خلاف بدترین جرم ہے، اور یہ جرم دنیا کی خاموشی کے سائے میں جاری ہے۔