(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض صہیونی فوج کی جاری جارحیت کے جواب میں فلسطینی مزاحمتی قوتیں دلیری اور حکمت عملی کے ساتھ صہیونی دشمن کو مؤثر ضربیں لگا رہی ہیں۔ بدھ کے روز، غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے قابض فوج اور اس کی بکتر بند گاڑیوں پر شدید حملے کیے جس کے نتیجے میں دو صہیونی فوجی زخمی ہو گئے۔
صہیونی میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ یہ دونوں فوجی خان یونس میں نشانہ بازوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ صہیونی فوج نے بھی تسلیم کیا ہے کہ دونوں اہلکار ایک فلسطینی مجاہد کی فائرنگ سے درمیانے درجے کے زخموں کے ساتھ ہسپتال پہنچائے گئے۔
القسام بریگیڈز نے اعلان کیا ہے کہ ان کے مجاہدین نے خان یونس کے مشرق میں واقع عبسان کبیر کے علاقے السناتی میں ایک صہیونی فوجی کو اپنی تیار کردہ غول رائفل سے نشانہ بنایا۔ اس نشانہ بازی کی کارروائی کے بعد علاقے میں ایک فوجی ہیلی کاپٹر کی آمد اور زخمی کو منتقل کرنے کی اطلاع بھی ملی۔
دوسری جانب فلسطینی اسلامی جہاد کے عسکری ونگ سرایا القدس نے بھی اعلان کیا کہ انہوں نے مشرقی خان یونس میں قابض صہیونی ریاست کی ایک پیادہ فوج کو انسانی مخالف بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا، جبکہ ایک اور کارروائی میں توپ خانے سے صہیونی ٹھکانوں پر گولہ باری کی گئی۔
اسی طرح قیزان النجار کے علاقے میں قابض فوج کی ایک فوجی گاڑی کو برمیلی بم سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں بھاری نقصان کی اطلاعات ہیں۔
دوسری جانب صہیونی فوج کے اپنے اعتراف کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والے اس خونی حملے کے بعد سے اب تک ان کے آٹھ سو چھیاسٹھ اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ پانچ ہزار نو سو سینتیس زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم، فلسطینی مزاحمت کا دعویٰ ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، اور قابض صہیون حکومت کی اپنی شکست چھپانے کے لیے غلط بیانی کر رہا ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے قابض اسرائیل امریکہ کی سرپرستی میں غزہ میں مکمل نسل کشی کر رہا ہے۔ یہ نسل کشی صرف بمباری تک محدود نہیں، بلکہ اس میں معصوم بچوں، خواتین اور بزرگوں کا قتل، پانی اور خوراک کی فراہمی میں رکاوٹ، ہسپتالوں کی تباہی، جبری نقل مکانی اور مکمل بستیوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دینا شامل ہے۔
اب تک اس ہولناک نسل کشی میں ایک لاکھ بیاسی ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمیوں کی تعداد کئی زیادہ ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ گیارہ ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور قحط و فاقہ کشی کے باعث کئی معصوم جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔