(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ کی وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ قحط کے نتیجے میں پیدا ہونے والے المیے کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے، جہاں گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کی قحط پر مبنی پالیسی کے باعث تیرہ فلسطینی شہید ہوئے جن میں تین معصوم بچے شامل ہیں۔
وزارتِ صحت کی روزانہ کی اعدادوشمار پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قابض اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک کے باعث شہداء کی تعداد تین سو اکسٹھ ہو چکی ہے جن میں ایک سو تیس بچے شامل ہیں۔ وزارتِ صحت نے واضح کیا کہ صرف اگست کے مہینے میں غذائی قلت کے باعث ایک سو پچاسی فلسطینی شہید ہوئے جو کئی ماہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں ستر افراد ایسے تھے جو مرحلہ وار غذائی سلامتی کے عالمی انڈیکس (آئی پی ایس ) کے تحت غزہ کو قحط زدہ قرار دیے جانے کے بعد شہید ہوئے، ان میں بارہ بچے بھی شامل تھے۔
وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس وقت تینتالیس ہزار بچے پانچ برس سے کم عمر کے اور پچپن ہزار حاملہ یا دودھ پلانے والی مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں سے سڑسٹھ فیصد حاملہ خواتین خون کی شدید کمی میں مبتلا ہیں جو گذشتہ کئی برسوں میں سب سے خطرناک شرح ہے۔
وزارتِ صحت نے خبردار کیا کہ موجودہ حالات نہایت تشویش ناک ہیں کیونکہ ہنگامی اقدامات محدود ہیں اور خوراک و ادویات کی شدید کمی ہے۔
قابض اسرائیل کی کھلی نسل کشی کی جنگ کے آغاز سے غزہ میں منظم طور پر قحط مسلط کیا گیا ہے جو گذشتہ پانچ ماہ میں مزید شدت اختیار کر گیا۔ ہسپتال روزانہ ایسے مریضوں کی شہادتیں درج کر رہے ہیں جو غذائی قلت کا شکار ہیں اور ان میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔ اس دوران قابض اسرائیل نے کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور ایندھن کی آمد روک رکھی ہے جس کے بغیر طبی سہولیات کام نہیں کر سکتیں۔
غزہ اس وقت ایک بے مثال انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے جبکہ عالمی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ جیسے جیسے قابض اسرائیل صحت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہا ہے اور امدادی سامان کی ترسیل روکی جا رہی ہے ویسے ویسے شہداء کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔