(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا میں شامل کشتیوں کا قافلہ تیونس کے شمالی شہر بنزرت کی بندرگاہ سے روانہ ہوگیا ہے ۔دو مرتبہ تاخیر کے بعد ہفتہ کے روز “گلوبل صمود فلوٹیلا ” کی روانگی کا آغاز ہوا۔ قافلے میں سینتالیس سے زائد ممالک کے پانچ سو سے ساتھ سو کارکنان شامل ہیں۔
غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے قائم بین الاقوامی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ ہفتے کے روز “گلوبل صمود فلوٹیلا کی پہلی کشتی تیونس کے شمالی شہر بنزرت کی بندرگاہ سے محصور غزہ کی جانب روانہ ہو گئی۔کمیٹی کے اعلان سے چند لمحے قبل ہی عالمی میڈیا کے کیمروں نے صمود فلوٹیلا کی ایک کشتی کو بنزرت کی بندرگاہ سے نکلتے اور غزہ کا رخ کرتے ہوئے ریکارڈ کیا۔
علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ صحافیوں اور کارکنوں نے بھی کشتی کی روانگی کی تصویریں اور مناظر بڑے پیمانے پر شیئر کیے جو غزہ کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔اس وقت “گلوبل صمود فلوٹیلا میں تقریباً پچاس کشتیاں تیونس کی مختلف بندرگاہوں پر موجود ہیں۔ ان میں تئیس کشتیوں پر مشتمل ایک مغربی قافلہ شامل ہے جبکہ بائیس غیر ملکی کشتیاں بھی اس بیڑے کا حصہ ہیں۔ ان پر یورپ، لاطینی امریکہ، امریکہ، پاکستان، بھارت اور ملیشیا سمیت کئی ملکوں کے کارکنان اور نمائندے سوار ہیں
گذشتہ اگست کے آخر میں اس بیڑے کی کشتیوں کا پہلی قافلہ اسپین کے شہر بارسلونا کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تھا۔ اس کے بعد یکم ستمبر کو ایک اور قافلہ اٹلی کے شمال مغربی علاقے جنوا کی بندرگاہ سے غزہ کی طرف بڑھا۔گذشتہ اتوار کو اسپین اور اٹلی سے آنے والی کشتیوں نے تیونس کے ساحل پر پہنچ کر صمود فلوٹیلا میں شمولیت اختیار کی تاکہ قابض اسرائیلی محاصرہ توڑتے ہوئے غزہ کے عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداری کھولی جا سکے اور بھوک و پیاس میں مبتلا فلسطینیوں تک فوری امداد پہنچائی جا سکے۔ان دنوں یورپی کشتیوں نے مغربی قافلوں سے پہلے بنزرت کی بندرگاہ پر پہنچ کر غزہ کے لیے مشترکہ روانگی کی تیاری کی۔
صمود فلوٹیلا کے منتظمین کے مطابق اس بیڑے میں درجنوں کشتیاں اور سیکڑوں کارکن شامل ہیں جو دنیا کی سینتالیس عرب اور مغربی ریاستوں سے آئے ہیں۔ ان میں نمایاں سیاست دان، فنکار اور پارلیمانی اراکین بھی شریک ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب اتنی بڑی تعداد میں کشتیاں اکٹھی ہو کر غزہ کی طرف روانہ ہوئی ہیں۔ اس سے قبل قابض اسرائیل نے انفرادی طور پر جانے والی کشتیوں کو زبردستی روکا، ان پر قبضہ کیا اور کارکنوں کو جبراً واپس بھیج دیا۔
اب بھی قابض اسرائیل نے غزہ کی تمام گذرگاہیں بند کر رکھی ہیں، کسی قسم کی خوراک، ادویات یا انسانی امداد کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی جس نے پورے غزہ کو قحط اور بھوک سے دوچار کر دیا ہے حالانکہ امدادی ٹرک سرحد پر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔