(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) بین الاقوامی ایسوسی ایشن برائے ماہرینِ نسل کشی نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایک تاریخی قرارداد منظور کر لی ہے جس کے مطابق قابض اسرائیل کے غزہ میں جاری اقدامات نسل کشی کے قانونی معیار پر پورے اترتے ہیں۔
یہ ایسوسی ایشن دنیا میں نسل کشی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس نے بتایا کہ اتوار کو ہونے والی رائے شماری میں پانچ سو اراکین میں سے چھیاسی فیصد سے زائد نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
ایسوسی ایشن نے اپنے بیان میں کہا کہ واقعات اور قانونی تناظر کے گہرائی سے تجزیے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غزہ میں قابض اسرائیل کی پالیسی اور اقدامات بین الاقوامی قانون میں نسل کشی کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ یہ تعریف اقوام متحدہ کے 1948 کے کنونشن برائے انسداد و سزا برائے جرمِ نسل کشی کی دوسری شق میں درج ہے۔
بیان کے مطابق یہ نتیجہ اس بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے کہ قابض اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کو ایک مخصوص قومی گروہ کی حیثیت سے، جزوی یا مکمل طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے اقدامات کر رہا ہے۔ یہ اقدامات وسیع پیمانے پر بچوں اور خواتین سمیت عام شہریوں کے قتلِ عام کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے ساتھ قابض اسرائیل نے اہم شہری ڈھانچے کو منظم طریقے سے تباہ کیا ہے جن میں اسپتال، بیکریاں، اسکول اور پانی کے نیٹ ورکس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، فلسطینیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک، زبان اور رویے مسلسل استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کے خلاف حد سے زیادہ تشدد کو جائز قرار دیا جا سکے۔ ان پر ایک وحشیانہ محاصرہ مسلط ہے، جس میں انہیں خوراک، پانی اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
ایسوسی ایشن نے واضح کیا کہ دو مارچ سے قابض اسرائیل نے غزہ کی تمام گزرگاہیں بند کر رکھی ہیں، جس سے انسانی امداد مکمل طور پر رکی ہوئی ہے۔ ہزاروں امدادی ٹرک سرحد پر موجود ہیں مگر قابض اسرائیل نے گزشتہ ماہ صرف محدود مقدار میں امداد کی اجازت دی جو ضرورت کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ نتیجتاً، قحط اب تک ہزاروں زندگیاں نگل رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ سفاک اسرائیلی حکام کے کئی عوامی بیانات اس نسل کشی کے ارادے کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ان میں فلسطینیوں کے خاتمے اور آبادی کو زبردستی صاف کرنے جیسی کھلی مجرمانہ دھمکیاں شامل ہیں۔
ایسوسی ایشن نے زور دے کر کہا کہ نسل کشی کی تعریف صرف مقتولین کی تعداد یا ہتھیار کی نوعیت سے طے نہیں ہوتی، بلکہ اصل عنصر مجرمانہ نیت ہے، جو مسلسل جرائم، تاریخی و سیاسی تناظر اور مجرموں کی زبان سے بخوبی عیاں ہوتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی بربریت پر احتساب نہ ہونے کے باعث قابض اسرائیل کو مزید شہ مل رہی ہے جس نے اس اجتماعی جرم کی راہ ہموار کی۔ یہ صورتحال عالمی برادری پر قانونی اور اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔
ایسوسی ایشن نے تمام حکومتوں، عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا اداروں سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جاری اس جرم کو کھلی نسل کشی تسلیم کیا جائے، فوری اقدامات سے عام شہریوں کو تحفظ دیا جائے اور اس وحشیانہ جارحیت کو روکا جائے۔ اس کے ساتھ عالمی عدالتِ انصاف اور عالمی فوجداری عدالت سمیت تمام عدالتی فورمز پر قابض اسرائیل کے احتساب کی حمایت کی جائے۔
قابلِ ذکر ہے کہ 21 نومبر 2024 کو عالمی فوجداری عدالت نے قابض اسرائیل کے جنگی مجرم وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سابق وزیرِ جنگ یوآف گیلنٹ کے خلاف فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
امریکہ کی سرپرستی میں قابض اسرائیل ساتھ اکتوبر 2023 سے غزہ میں کھلی نسل کشی کر رہا ہے جس میں قتلِ عام، بھوک سے شہادت، تباہی اور جبری ہجرت شامل ہیں۔ قابض اسرائیل تمام عالمی مطالبات اور عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات کو مسلسل نظر انداز کرتا رہا ہے۔ اس نسل کشی کے نتیجے میں اب تک تراسٹھ ہزار پانچ سو ستاون فلسطینی شہید، ایک لاکھ ساٹھ ہزار چھ سو ساٹھ زخمی اور نو ہزار سے زیادہ لاپتہ ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہیں اور قحط نے تین سو اڑتالیس فلسطینیوں کی جان لے لی ہے، جن میں ایک سو ستائیس معصوم بچے شامل ہیں۔