(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) قابض اسرائیل نے غزہ کا سمندری محاصرہ توڑنے کے لیے روانہ ہونے والی عالمی صمود فلوٹیلا کو روکنے کے لیے خطرناک اور پیچیدہ منصوبہ بنا لیا ہے۔ سینتالیس کشتیوں پر مشتمل یہ فلوٹیلا پانچ سو سے زائد کارکنان کو لے کر غزہ کی جانب بڑھ رہا ہے جن میں ماحولیاتی مہم جو گریٹا تھنبرگ پارلیمانی نمائندے اور وکلا بھی شامل ہیں۔
قاتل اسرائیلی فوج کے منصوبے کا انکشاف خود غاصب اسرائیل کے ذرائع ابلاغ نے کیا ہے۔ فلوٹیلا نے منگل کی شام تک غزہ پہنچنا تھا اور سفاک ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے کارروائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ منتظمین کے مطابق فلوٹیلا غزہ سے ڈیڑھ سو ناٹیکل میل دور اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں قابض اسرائیل نے جون میں بحری جہاز میڈلین پر قبضہ کیا تھا۔صہیونی قاتل فوج نے غزہ سےایک سو پچاس ناٹیکل میل تک کے علاقے کی بحری ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
فلوٹیلا کے منتظمین نے اطالوی حکومت کی مخالفت کے باوجود سفر جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی نے فلوٹیلا کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے امن کی کوششوں اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم منتظمین نے ان بیانات کو سازش قرار دیا اور کہا کہ فلوٹیلا آگے بڑھے گا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل کی بحریہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلوٹیلا کو غزہ کے قریب پہنچنے سے قبل ہی روک دے گی۔ منصوبے کے تحت کارکنان کو کشتیوں سے اتار کر ایک بڑے بحری جہاز پر منتقل کیا جائے گا اور بعد میں اشدود بندرگاہ لے جایا جائے گا، جہاں سے انہیں یا تو ملک بدر کیا جائے گا یا حراست میں رکھا جائے گا۔ فوجی ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ کچھ کشتیوں کو ڈبو بھی دیا جائے گا۔
قابض اسرائیلی میڈیا کے مطابق تقریباً چھ سو پولیس اہلکار اور آٹھ ایمبولینسیں اس آپریشن کے لیے تیار ہیں جبکہ اسپتالوں کو بھی ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ یہ کارروائی ممکنہ طور پر یوم کپور کے دوران ہو سکتی ہے، جو یہودی مذہب کا مقدس ترین دن ہے۔
غزہ پر سفاک اسرائیل اور مصر نے 2007 سے مختلف سطحوں پر ناکہ بندی کر رکھی ہے جس کا مقصد بیس لاکھ فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا قرار دیتے ہیں۔فلوٹیلا کے ساتھ اسپین کا ایک اور اٹلی کے دو جنگی بحری جہاز ہیں تاہم یہ جہازقاتل اسرائیلی بحریہ سے لڑائی نہیں کریں گے۔
غزہ میں انسانی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ حماس کے زیرانتظام وزارت ِصحت کے مطابق اب تک چھیاسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور لاپتہ ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب قابض اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان میں بائیس ہزار سے زائد جنگجو شامل ہیں جبکہ عام شہری شہادتوں کی بڑی وجہ حماس کی جانب سے رہائشی علاقوں کو بطور جنگی مورچہ استعمال کرنا ہے۔