سرایا القدس: طوفان الاقصیٰ مزاحمت کا تاریخی موڑ ہے
سرایا القدس نے کہا ہے کہ دو سال قبل شروع ہونے والا طوفان الاقصیٰ معرکہ فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا جس نے قابض اسرائیل کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور مزاحمت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
(روزنامہ قدس ـ آنلائن خبر رساں ادارہ) اسلامی جہادِ فلسطین کے عسکری ونگ سرایا القدس نے کہا ہے کہ دو سال قبل شروع ہونے والا طوفان الاقصیٰ معرکہ فلسطینی مزاحمت کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا جس نے قابض اسرائیل کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور مزاحمت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
سرایا القدس نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس عظیم معرکے میں درجنوں قابض صیہونی فوجی ہلاک ہوئے، متعدد کو قیدی بنایا گیا اور مزاحمت نے اپنے کئی جانباز شہداء، زخمیوں اور اسیران کی قربانیاں پیش کیں۔ بیان میں کہا گیا کہ اس دن کے بعد سے دشمن کے ساتھ یہ جنگ بغیر رکے جاری ہے۔
سرایا القدس نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل نے ایک جنونی اور تباہ کن نسل کش جنگ مسلط کی جس کا اصل ہدف غزہ کے معصوم شہری تھے۔ تاہم فلسطینی مزاحمت نے اپنی ثابت قدمی اور قربانیوں کے ذریعے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی تباہی یا نفسیاتی جنگ کے ہتھکنڈے کبھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ جب تک قبضہ برقرار ہے، مزاحمت کی بندوق بلند رہے گی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی صرف ایک باعزت تبادلے کے معاہدے کے تحت ہی ممکن ہوگی جو جنگ کے خاتمے اور غزہ سے محاصرہ اٹھانے کی ضمانت فراہم کرے۔
سرایا القدس نے یہ بھی کہا کہ مزاحمت اپنے راستے پر ثابت قدم ہے اور آنے والے دنوں میں دشمن کے خلاف کارروائیاں اس کے مسلسل زوال اور تھکاوٹ کا باعث بنیں گی یہاں تک کہ اس غاصب ریاست کا خاتمہ ہو جائے۔
بیان میں حزب اللہ کے مجاہدین کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جنہیں سرایا القدس نے اپنا حقیقی ساتھی اور حمایتی قرار دیا۔ سرایا القدس نے حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ اور ان کے جانباز شہداء و مجاہدین کو اس مقدس جنگ کے اولین شریک قرار دیا۔
اسی طرح یمن کی غیور قوم اور انصار اللہ تحریک کو بھی سراہا گیا جو گزشتہ دو سال سے غزہ اور اہلِ فلسطین کی حمایت میں صیہونی ریاست پر میزائلوں، ڈرونز اور بارودی کشتیوں سے حملے کر رہی ہے۔
سرایا القدس نے اسلامی جمہوریہ ایران کا بھی شکریہ ادا کیا، جس نے اس جنگ میں تین مواقع پر براہِ راست دشمن کے خلاف حصہ لیا اور اپنے کئی عظیم علماء، کمانڈروں اور شہداء کی قربانیاں پیش کیں۔ بیان میں خاص طور پر فلسطین کے شہید حاج رمضان کو یاد کیا گیا جنہوں نے مزاحمت کی تیاری اور قابض دشمن کے مقابلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔