حالیہ دنوں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل جہاں عالمی سطح پر شدید ناکامی اور بدنامی کا شکار ہو رہی ہے وہاں خاص طور پر صدی کی ڈیل کی ناکامی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے نسلی تعصب نے جعلی ریاست اسرائی کو آگ کے دریا میں جھونک کر رکھ دیا ہے۔اسرائیل جو غرب ایشیاء کے ممالک کو پتھر کے دور میں پھینک دینے کی دھمکیاں دیا کرتا تھا آج اندر ہی اندر سیاسی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو کر خود پتھر کے دور کی طرف سفر کو تیزی سے طے کرتے ہوئے اپنے منطقی انجام یعنی نابودی کی طرف گامزن ہے۔
ابھی چند روز پہلے ہی کی بات ہے کہ دنیا بھر میں اچانک سوشل میڈیا پر رابطوں کے سافٹ وئیر ز جن میں فیس بک اور واٹس ایپ سمیت اسناپ چاٹ سر فہرست ہیں کو اچانک سے بند کر دیا گیا اور صارفین کے لئے کسی بھی طرح کی ویڈیو یا تصویر کو نہ تو اپ لوڈ کیا جانا ممکن رہا اور نہ ہی ڈاؤنلوڈنگ ممکن رہی۔ایسے حالات میں سوشل میڈیا سے منسلک کروڑوں لوگوں میں اضطراب کی کیفیت طاری ہو گئی۔لیکن جلد ہی اس راز سے بھی پردہ فاش ہو گیا اور معلوم ہو اکہ اس کی بنیادی وجہ مقبوضہ فلسطین پر صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل میں نسلی فسادات کے شروع ہونا تھا۔یہ فسادات 30جون کو اس وقت شروع ہوئے جبکہ ایک صہیونی پولیس اہلکار نے سیاہ فام یہودی سلیمان ٹکا کو تیس میٹر کے فاصلے پر گولی مر کر ہلاک کر دیا تھا۔
نسلی تعصب میں صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔جہاں یہ نسلی تعصب فلسطینیوں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں روارکھا جاتا ہے وہاں خود صہیونیوں کے درمیان بھی یہ نسلی تعصب بڑے پیمانے پر پایا جاتا ہے۔فلسطین کی مظلوم عوام گذشتہ ایک سو سال سے صہیونیوں کے نسلی تعصب کا شکار ہیں۔
حال ہی میں صہیونیوں کے نسلی تعصب کا ایک بڑا واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ایک گورے صہیونی پولیس اہلکار نے ایتھوپیا کے ایک صہیونی یہودی سلیمان ٹکا کو بے دردی سے قتل کر دیا جس کے بعد ایتھوپیا سے فلسطین میں لا کر بسائے جانے والے صہیونیوں نے گورے صہیونیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل کر مظاہرے شروع کر دئیے او ر ان مظاہروں کو دنیا کی نظر سے چھپانے کے لئے سب سے پہلے صہیونی لابی نے سوشل میڈیا کو جام کر دیا تا کہ دنیا میں دیگر خبروں کی طرح صہیونیوں کی نسلی تعصب کی خبر تیزی سے نہ پھیل سکے۔
یہ جولائی کے پہلے ہفتہ کی بات ہے کہ جب صہیونی پولیس اہلکار نے ایک ایسے صہیونی یہودی کو قتل کیا جو ایتھوپیا سے تعلق رکھتا تھا اور سیاہ فام تھا، اس قتل کے بعد سیا ہ فام صہیونیوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا کر صہیونی نسل پرستی کے خاتمہ کے نعرے بلند کئے اور عالمی برادری کی توجہ پر مبنی بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر شدید احتجاج شروع کر دیا۔تاہم دوسری طرف سے صہیونی نسل پرستی کو جاری رکھا گیا اور سیاہ فام صہیونیوں کو مظاہرہ کرنے کے جرم میں نہ صرف گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
سیا ہ فام صہیونیوں کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز پر آویزاں نعروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین پر صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے وحشت ناک مظالم کا نہ صرف فلسطینی نشانہ بن رہے ہیں بلکہ دنیا کے مختلف علاقوں سے لا کر بسائے جانے والے سیاہ فام یہودی و صہیونی بھی اسرائیلی نسل پرستی کا شکار ہیں۔سیاہ فام یہودیوں نے اسرائیل مخالف مظاہرو ں میں جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ان پر یہ نعرے درج تھے۔
"Mom, don’t let me be the next victim,”
"different from the outside but the same within.”
ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں میں ایک سیاہ فام یہودی جانیت نے Ynetنیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ فلسطین پر قائم ناجائز اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی نسل پرستی اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ سیاہ فام یہودیوں کے بچے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے حتیٰ بچوں کی ماؤں کو بھی گھروں سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔جانیت کاکہنا تھا کہ میں اپنا خون بہانے کے لئے تیار ہوں اور میں مرنے سے نہیں ڈرتا،میں صہیونی غاصب ریاست اسرائیل کے نسل پرستانہ اقدامات کو دنیا میں عیاں کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہوں گا۔
سیاہ فام یہودی کے اہل خانہ کو اپنے بیٹے سلیمان ٹکا کے قتل ہونے پر شدید صدمہ ہے اور شاید ان کا صدمہ اس بات کا باعث بنے کہ ان کو بھی فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل عام پر رنجیدہ کرے۔کیونکہ اس مرتبہ صہیونیوں کی گولیوں کا نشانہ خود ایک سیاہ فام یہودی بنا ہے۔
صہیونزم نے فلسطینیو ں کو قتل کرنا اس لئے بھی جائز قرار دیا تھا کہ کل کو یہ فلسطینی اور فلسطینی بچے جوان ہو کر صہیونی جعلی ریاست اسرائیل اور صہیونزم کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں، اسی فارمولہ پرکاربند رہتے ہوے صہیونیوں نے سنہ1948ء سے اب تک ہزاروں فلسطینیوں کو نسل پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔اب یہی نسل پرستی خود ان کے اپنے گھروں کو آگ بن کر لپیٹ رہی ہے۔آج صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں نہ صرف فلسطین بلکہ وہ تمام ایک لاکھ چالیس ہزار ایتھوپیا کے یہودی بھی شامل ہیں جو صہیونیوں کی نسل پرستی کا شکار ہے۔واضح رہے کہ سنہ1948ء کے بعد اور کچھ قبل دنیا کے مختلف ممالک بشمول جرمنی، اٹلی، فرانس، روس، آسٹریا سمیت ایتھوپیا سے بھی یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر منتقل کیا گیا تھا تا کہ فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی تشکیل عملی جامہ پہنایا جا سکے۔آج صورتحال یہ ہے کہ ایتھوپیا سمیت دیگر علاقوں سے لا کر بسائے جانے والے سیاہ فام یہودیوں کو دوسرے اور تیسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بد ترین قسم کا نسلی تعصب روا رکھا جاتا ہے جس کی ایک مثال سلیمان ٹکا کا صہیونی پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل ہے۔نہ جانے اور کتنے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن چونکہ صہیونیوں نے تمام ذرائع ابلاغ کو کنٹرول رکھا ہوا ہے تاہم اس طرح کی خبروں کو باہر نہیں نکلنے دیا جاتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہاں اسرائیلی فوجی محازوں ر فلسطین اور حامیان فلسطین کے ہاتھوں شکست کھا رہاہے وہا ں ساتھ ساتھ اسرائیل کے توسیع پسندانہ خواب بھی چکنا چور ہو رہے ہیں اور اب اندونی طور پر اسرائیل کی بحرانی کیفیت اس بات کی شاہد ہے کہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل عنقریب نابودی کی طرف ہے اور آنے والی نسلیں ہی نہیں بلکہ زمانے کی موجودہ نسل ہی فلسطین اور القدس کی آزادی کا مشاہدہ کرے گی۔اسرائیل اپنی ہی ایجاد کردہ نسل پرستی کی گھناؤنی آگ کی لپیٹ میں جل کر خاک ہو جائے گا۔
تحریر:صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ سیاسیات، جامعہ کراچی