(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مقبوضہ فلسطین میں یورپی اتحاد تنظیم کے وفد کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی یہ بے دخلی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہےاور اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی آبادی کو تحفظ فراہم کرتے ہوئےانہیں جبری ہجرت پر مجبور نہ کرے۔
مقامی ذرائع کےمطابق قابض ریاست اسرائیل کی سپریم کورٹ نےمقبوضہ مغربی کنارے میں دیہی علاقے سے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں پر مشتمل 8 دیہاتوں کے رہائشیوں کو بے دخل کیے جانے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس کے بعد اسرائیلی عدالت کا اگلا قدم صہیونی فوج کے لیے اس علاقے کو خالی کرانا ہے جہاں فوجی تربیتی مشقیں انجام دی جاتی ہیں۔
فلسطینیوں کے درمیان تقریبا 20 برس تک غیر فیصلہ کن قانونی جنگ کے بعد اسرائیلی سپریم کورٹ نے ایک روز قبل رات گئے اپنا فیصلہ جاری کیاجس میں الخلیل شہر کے نزدیک چٹانوں والے علاقے میں 8 دیہات کو منہدم کرنے کی راہ ہموار کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ "عدالت کہ سامنے یہ بات آئی ہے کہ اسرائیلی فوج نے 1980ء کی دہائی میں جب مذکورہ علاقے کو فوجی تربیت کا علاقہ ہونے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت فلسطینی آبادی یہاں مستقل صورت میں مقیم نہیں تھے”۔
اسرائیلی عدالت کے اس فیصلے کے بعد فلسطینی آبادی اور انسانی حقوق کی اسرائیلی جماعتوں کا کہنا ہے کہ 1967ء میں مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے سے قبل متعدد فلسطینی خاندان 7400 ایکڑ رقبے پر مستقل صورت میں مقیم تھے۔ لہذا ان فلسطینیوں کی بے دخلی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی اور ہم اپنے گھروں کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے۔
اس حوالے سے مقبوضہ فلسطین میں یورپی اتحاد تنظیم کے وفد کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے فلسطینیوں کی یہ بے دخلی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور قابض طاقت ہونے کی حیثیت سے اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی آبادی کو تحفظ فراہم کرے اور انہیں جبری ہجرت پر مجبور نہ کرے۔