(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)رمضان المبارک کے آخری الوداعی جمعہ کو یوم القدس کے انعقاد کا فیصلہ،اس سلسلے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں سیمینار اور تقاریب منعقد کی جارہی ہیں جس میں مقامی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم متعدد فلسطینی طلباء نے بھی شرکت کی۔
گذشتہ اتوار فلسطین فاؤنڈیشن کے تحت منعقدہ القدس کانفرنس میں متعدد سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مقررین نے حکومت کو صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے خلاف خبردارکرتے ہوئے کہا ہے کہ "حکومت یہ نہ بھولیں کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے تقسیم کے ابتدائی چند مہینوں میں ہی مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو واضح سمت دے دی تھی، اور اس پالیسی کو آنے والی حکومتوں نے برقرار رکھا ہے”۔ بعد ازاں 1974 کی اسلامی کانفرنس نے مسئلہ فلسطین کو امت کا مسئلہ بنا دیا جو پہلے صرف عربوں کا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔
سیمینار سے خطاب کرتےہوئے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ پاکستان کو کچھ مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جنہوں نے حال ہی میں قابض ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔
انھوں نے امید ظاہر کرتےہوئے کہا ہے کہ گریٹر اسرائیل پراجیکٹ ہمیشہ ناکام ہی رہے گا کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی حمایت یافتہ "صدی کی ڈیل” اور اب موجودہ امریکی صدر بائیڈن کی حمایت یافتہ "معادہ ابراہیم ” کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے دباؤں کے باوجود صرف چار مسلم ممالک ہی امریکہ کے سامنے جھکے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جن ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا تھا، ان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلقات کبھی بھی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے۔
اس موقع پر جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے کہا کہ جب رمضان المبارک میں اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصیٰ میں فلسطینیوں پر بلا اشتعال تشدد کیا تو کسی عرب ملک میں اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے مسجد پر اسرائیلی فوج کے حملے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کے باوجود فلسطین تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بیرسٹر امیر حسن نے کہا کہ الفاظ سے زیادہ عمل بولتا ہے اور یہ ان کے قائد ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے ایک ہی اقدام سے فلسطین پالیسی کی تعریف کی جو پاکستانی عوام کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی پاسپورٹ متعارف کرایا تو پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح طورپر لکھا تھا کہ ‘یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے’۔
کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی آغا علی حیدر اور حنا پرویز بٹ، پاکستان تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی سید زہرہ نقوی، منہاج القرآن کے مولانا محمد حسین آزاد، ملی یکجہتی کونسل کے جاوید قصوری اور کئی دیگر شامل تھے۔
فلسطینی طالب علم رشاد عیاض نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ جب تک ایک بھی فلسطین زندہ ہے مسئلہ فلسطین پر مزاحمت جاری رہے گی انہوں نے کہا کہ وہ فلسطین کے کاز کی حمایت کرنے پر پاکستان کی حکومت اور عوام کے شکر گزار ہیں۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نمائندے نے پاکستانی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطینی عوام کے ساتھ اور اسرائیل کے خلاف اظہار یکجہتی کے لیے یوم القدس پر نکلیں۔ تنظیم اس دن پورے پاکستان میں 125 جلوس نکالتی ہے۔ لاہور میں 29 اپریل کو مرکزی جلوس اسلام پورہ سے اسمبلی ہال تک نکالا جائے گا۔
دیگر مقررین نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی فلسطین پالیسی ترک کرتا ہے تو وہ کشمیر کا مقدمہ بھی ہار جائے گا۔