(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ جو مسلسل تنازع کی زد میں ہےاور اس کے حوالے سے حالیہ اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ سمیت سخت گیر اسرائیلیوں کا مؤقف ہے کہ یہ علاقہ یہودی تاریخ کا مرکز ہے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ مغربی نارے میں فلسطینیوں کے احتجاج پر صہیونی فائرنگ کے نتیجے میں 1 فلسطینی کی شہادت کے بعد گلیوںگلیوں میں جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور نوجوانوں کی جانب سے شدید اشتعال دیکھنے میں آرہا ہے ، ا سرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ایک فلسطینی کی شہادت کی رپورٹ ملی ہے جس کی وجہ سے نابلس کے جنوبی علاقے میں مشتعل افرادکا احتجاج جاری ہے۔
قابض فوج کی جارحیت کے باعث فلسطینی سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کر رہے ہیں اور اسرائیلی فورسز پر پتھراؤ کیا جارہا ہے جبکہ فوج ی جانب سے بھی وقفے وقفے سے فائرنگ اور گھیراؤ کر کے فلسطینیوں ی گرفاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔
خیال رہے کہ مشرقی بیت المقدس سے جڑے مغربی کنارے کے علاقے میں 4 لاکھ 75 ہزار اسرائیلی آباد کار بس چکے ہیں جہاں پر 28 لاکھ سے زائد فلسطینی پہلے سے رہائش پزیر تھے، فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے کے حصول کے لیے جدوجہد کر ر ہے ہیں اور یہاں اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا، جو مستقبل میں اپنی ریاست تشکیل دینے کی مہم کا حصہ تھا۔
مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ جو مسلسل تنازع کی زد میں ہےاور اس کے حوالے سے حالیہ اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینیٹ سمیت سخت گیر اسرائیلیوں کا مؤقف ہے کہ یہ علاقہ یہودی تاریخ کا مرکز ہے۔
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔