(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) حقیقت میں بالفور کا لکھا گیا خط صہیونیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے ایک گہری سازش تھا جسے تاریخ نے بعد میں مشاہدہ کیا۔
ماہ نومبر کا آغاز تاریخ فلسطین کے عنوان سے ایک بھیانک یاد کے ساتھ ہوتا ہے۔آج سے ٹھیک 104سال قبل یعنی سنہ1917ء میں 2نومبر کو برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے صہیونی تحریک کے سب سے بڑے حمایتی لارڈ والٹر راتھس چائلڈ کو ایک خط جاری کیا جس میں فلسطین کی سرزمین پر غاصب صہیونیوں کے لئے ایک یہودی یا صہیونی ریاست بعنوان بنانے کی تجویز پیش کی گئی جسے بعد میں اسرائیل کے نام سے قائم کیا گیا۔ اس خط میں بالفور نے تحریر کیا کہ حکومت برطانیہ فلسطین کی زمین پر یہودیوں کی ریاست کے قیام کے حق میں ہے۔تاریخ کے موضوعات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حکومت برطانیہ کی جانب سے لکھا گیا یہ خط مسئلہ فلسطین کی بنیاد بنا۔اگر چہ دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر بسانے کا عمل پہلے ہی شروع کیا جا چکا تھا لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ جس وقت صہیونیوں کی تحریک ایک طرف دنیا میں پہلی جنگ عظیم کا ایندھن بھڑکانے میں مصروف تھی تو دوسری جانب فلسطین کی سرزمین مقدس پر یہودی ریاست کے قیام کے لئے سرگرداں تھی۔
بالفور اعلامیے کا پس منظر یہ ہے کہ جب یہ جاری کیا گیا، پہلی جنگ عظیم لڑی جا رہی تھی۔ فلسطین ترک خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام علاقہ تھا۔ ترکی ”مرکزی طاقتوں“ کے ساتھ تھا۔ برطانیہ اور امریکا ”اتحادی طاقتوں“ کے بلاک میں شامل تھے۔ جنوری 1915ء میں ترکی کی عثمانی حکومت کی افواج نے مصر کے علاقے نہر سوئز اور وادی سینا پر حملہ کر دیا تھا۔ مصر برطانوی سامراج کے زیر تسلط تھا۔ اس حملے کے بعد برطانیہ کو قریبی علاقے فلسطین کی اسٹرٹیجک اہمیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر برطانیہ کے صہیونی سرہربرٹ سیموئیل نے برطانوی کابینہ کو خط لکھا جس میں تجویز کیا گیا کہ فلسطین میں یہودی وطن کا قیام برطانیہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی سر ہربرٹ سیموئیل بعد میں فلسطین میں برطانیہ کا ہائی کمشنر (یعنی سفیر) مقرر کیا گیا تھا۔
فلسطینی عرب جن میں عیسائی فلسطینی سمیت مقامی یہودیوں اور مسلمان فلسطینیوں نے ہمیشہ حکومت برطانیہ کے ایسے منصوبوں اور خاص طور سے اس اعلامیہ کی شدید مذمت کی اور اسے مسترد کیا۔ مقامی یہودی جو صہیونی نظریات کے حامل نہیں ہیں اس بات پر مکمل یقین رکھتے تھے کہ فلسطین کی زمین فلسطینیوں کی ہے اور فلسطین ہر فلسطینی عرب کا وطن ہے چاہے وہ مسلمان ہو، یہودی ہو یا عیسائی اور یا پھر کسی بھی قوم اور مذہب سے ہو۔آج بھی مغربی ممالک بالخصوص امریکا میں دسیوں ہزار یہودی ایسے بھی موجود ہیں جو صہیونیزم کو یہودی مذہب کے خلاف گھناؤنی سازش قرار دیتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین کی زمین پر اسرائیل نام سے قائم کی جانے والی ریاست جعلی ریاست ہے۔
برطانوی حکومت کے اس اعلی عہدیدار کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں جو تاریخی ناانصافی کی گئی پوری دنیا آج اس کا مشاہدہ کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کا موجد برطانیہ کو سمجھا جاتا ہے جو بالکل درست ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ برطانوی حکومت فقط تنہا ہی اس ناپاک منصوبہ کی موجد اور عمل درآمد کروانے والی نہ تھی بلکہ امریکی حمایت بھی ان کے ساتھ تھی۔لہذا یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ امریکہ اور برطانیہ ہی اسرائیل کے سرپر ست ہیں اور آج تک ایک سو چار سال میں صہیونیوں نے جو کچھ فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے اس ظلم اور بربریت و ناانصافی میں امریکا اور برطانیہ بھی نہ صرف فلسطینیوں کے مجرم ہیں بلکہ اقوام عالم کے بھی مجرم ہیں۔
بالفور اعلامیہ تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس نے فلسطین کی سرزمین پر صہیونیوں کے ہاتھوں مظلوم انسانوں کے قتل عام کا لائسنس فراہم کیا۔آج بھی فلسطینی عوام کے قاتل صہیونی انتہائی بے شرمی کے ساتھ بالفور اعلامیہ پر فخر کرتے ہوئے فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قیام کے لئے اہم سنگ میل قرار دیتے ہیں۔
حقیقت میں بالفور کا لکھا گیا خط صہیونیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے ایک گہری سازش تھا جسے تاریخ نے بعد میں مشاہدہ کیا۔واضح رہے کہ بالفور اعلامیہ کی توثیق 31اکتوبر1917ء کو اس وقت کی برطانو ی کابینہ نے کی تھی۔
تاریخ کے اس سیاہ ترین باب کا متن کچھ اس طرح سے تھا:محترم روتھشیلڈ:مجھے شاہ برطانیہ کی طرف سے آپ کو بتاتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ درج ذیل اعلان صہیونی یہودیوں کی امیدوں کے ساتھ ہماری ہمدردی کا اظہار ہے اور اس کی توثیق ہماری کابینہ بھی کر چکی ہے:”شاہ برطانیہ کی حکومت فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حامی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ہر ممکن صلاحیت کو بروئے کار لائے گی مگر اس بات کو مدِ نظر رکھا جائے کہ فلسطین کی موجودہ غیر یہودی آبادی (مسلمان اور مسیحی) کے شہری و مذہبی حقوق یا دوسرے ممالک میں یہودیوں کی سیاسی حیثیت کو نقصان نہ پہنچے۔ ”
میں بہت ممنون ہوں گا اگر اس اعلان کو صہیونی فیڈریشن کے علم میں بھی لایا جائے۔آپکا مخلص۔۔آرتھر جیمز بالفور
دنیا کے سامنے انسانی حقوق اور انصاف و قانون کی بالا دستی کا راگ الاپنے والے مغربی حکومتوں کی حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے سرمایہ دارانہ نظام کے مفاد کی خاطر دنیا کے ایک حصہ یعنی فلسطین پر ایک نا رکنے والے ظلم اور جبر کے سلسلہ کو جنم دیا۔ ایک صدی اگرچہ بیت چکی ہے لیکن دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ظلم اور جبر و استبداد کے پنجے کے سامنے فلسطینی آج بھی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح سے جیسے انہوں نے سنہ1917ء میں کیا تھا اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے۔ اس وقت فلسطینی عوام کے پاس اپنا حق حاصل کرنے کے لئے پتھر اور غلیل کا راستہ موجود تھا لیکن آج کا فلسطین پتھروں سے آگے نکل کر میزائل اور راکٹوں سمیت ڈرونز ٹیکنالوجی کا فلسطین بن چکا ہے۔ برطانوی حکومت نے اعلان بالفور کے ذریعہ تا قیامت اپنے ماتھے پر سیاہ کلنک لگا لیا ہے جسے شاید کسی طرح مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔آج دنیا کے باشعور لوگ جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات کرتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی یہ نام نہاد سپر طاقتیں اور قانون و انصاف کی بالا دستی کا دم بھرنے والی حکومتیں فقط کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر استوار ہیں۔ان کی حقیقت ان کے ظاہر سے بھیانک ترین ہے۔یہ حکومتیں نہ صرف ظلم و جبر کی حامی ہیں بلکہ باشعور انسانوں کے لئے نا قابل اعتماد ہیں۔ان پر کسی صورت بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ بالفور اعلامیہ حقیقت میں اس منظم سازش کا ایک حصہ تھا کہ جس کے تحت فلسطین پر صہیونی یہودی ریاست مسلط کر کے برطانیہ اور امریکا نے اپنے اور صہیونی سامراج کے مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔آج اقوام عالم، یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ آخر بالفور اعلامیہ کی صورت میں فلسطینی عوام کے ساتھ جو خیانت اور ظلم کیا گیا تھا کیا آج دور جدید کی حکومتیں برطانوی اور امریکی حکومت سے سوال اٹھائیں گی؟ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا آج تک فلسطینیوں کے شہری اور مذہبی حقوق پامال ہوتے انھیں نظر نہیں آ رہے؟حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود ہی فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی پر مبنی ہے لہٰذا اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان