(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) 2018ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کردیا تھا اور قونصل خانے کو اسی میں ضم کردیا تھا۔ اسرائیل نے اس اقدام کی تعریف کی تھی جبکہ فلسطینیوں نے ان کی مذمت کی تھی۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن مقبوضہ بیت المقدس کے کچھ حصوں سمیت مقبوضہ مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی میں آباد فلسطینیوں کے ساتھ ازسرنو تعلقات استوار کرنے کے لیےامریکی قونصل خانے کودوبارہ کھولنا چاہتے ہیںجس کے بعد صہیونی ریاست اسرائیل کے حکومتی حلقوں میں گہرے اختلافات کا اظہار کیا جارہا ہے۔
اسرائیلی کابینہ کے ایک وزیر نے منگل کے روز کہا ہے کہ صہیونی ریاست مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے لیے امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے کی مخالفت جاری رکھے گی۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیرانصاف جدون سار سے ایک کانفرنس میں یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا قونصل خانہ دوبارہ کھلنے کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے اورموجودہ یا مستقبل میں کسی اسرائیلی حکومت کو اس ضمن میں امریکی دباؤ کا سامنا ہوسکتا ہے؟
جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’’اس فیصلہ کواسرائیلی منظوری کی ضرورت ہے۔ہم آنے والی نسلوں کے لیےاس مسئلہ پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔‘‘
واضح رہے کہ 2018ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کردیا تھا اور قونصل خانے کو اسی میں ضم کردیا تھا۔ اسرائیل نے اس اقدام کی تعریف کی تھی جبکہ فلسطینیوں نے ان کی مذمت کی تھی۔