(روزنامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) یہ آج سے 104 برس پہلے کی بات ہے، پہلی جنگ عظیم اپنے اختتام کی جانب گامزن تھی جب 1917ء میں برطانوی سرکار نے فلسطین کی سرزمین پر یہودی مذہب کے پیروکاروں کی حکومت کے قیام کے لئے مدد اور اعانت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسے دنیا ’اعلان بالفور‘ کے نام سے جانتی ہے۔
باالفاظ دیگر، برطانیہ کی عالمی حیثیت کے پیش نظر اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ برطانیہ نے فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ وہ اس سرزمین کے حوالے سے اپنے مذہبی عقائد اور نظریات پر مبنی اہداف کو حاصل کرسکیں۔ پھر مذہبی پہچان ہی کی بنیاد پر دنیا بھر سے یہودیوں کو لالاکر فلسطین میں بسایا گیا۔
دوسری جانب اسلام کی مشترک پہچان کے نام پر سامنے آنے والے کسی بھی تصور‘ اقدام یا تحریک کو انسانیت مخالف سرگرمی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے اپنے دانشور بھی مسلمانوں کو یہی مشورہ دیتے پائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی تحریک اس لئے کامیاب نہیں ہوتی کہ اسے مذہب کے نام پر استوار کیا گیا ہے۔ لہٰذا اپنی جدوجہد کو نسل‘ زبان اور قومیت سے جوڑیئے۔
فلسطین کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا تھا اور پھر فلسطین کی جدوجہد کا عنوان عرب قوم پرستی طے پایا۔ آج فلسطین اور ملحقہ عرب ممالک کا بہت سا علاقہ عملاً یہودیوں کے زیر تسلط جاچکا ہے اور وہاں کے اصل باشندے اپنی آبائی سرزمین پر مہاجرین سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ عرب ممالک کی جانب سے کئی جنگوں اور مسلح جدوجہد کے باوجود عالمی طاقتوں نے اسرائیل کی غیر قانونی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہوئے عرب ممالک کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔
تاریخ عالم ہمیں یہی بتاتی ہے کہ بالادست قوتیں جب بھی کسی ناجائز قبضے کے معاملے میں کردار ادا کرنے کے لئے سامنے آتی ہیں، کسی تنازع کو نمٹانے کے لئے‘ کسی مسلح تصادم میں بیچ بچاؤ کرانے کے لئے مداخلت کرتی ہیں تو ان کا اصل مقصد اپنے فریق کی مدد کرنا ہوتا ہے خواہ وہ فریق سو فیصد غلط ہی کیوں نہ ہو‘ دوسروں کے حق پر ڈاکہ ہی کیوں نہ ڈال رہا ہو‘ زمین ہتھیا رہا ہو یا پھر جارحیت کا مرتکب ہوا ہو۔ جس طرح فلسطین کے معاملے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی مظلوم عوام کی مزاحمت کے باوجود اسرائیل کی پوزیشن مستحکم ہوتی گئی۔
اسی طرح دنیا کے ایک اور دیرینہ تنازع مسئلہ کشمیر پر بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قابض بھارت کا تسلط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہر مسلح تصادم کے بعد عالمی برادری کے موثر ترین ملکوں نے بھارت کے لئے گنجائش پیدا کی اور اس کے لئے اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے کا موقع پیدا کیا۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان جب امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی قیادت نے اُن سے کشمیر پر مدد فراہم کرنے کے امکان پر بات کا آغاز کیا۔ یاد رہے کہ یہ بات امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی تھی حالانکہ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ پاکستانی وزیر اعظم امریکی صدر سے کشمیر پر حمایت کی درخواست کریں گے۔
جیسا کہ سب دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کوئی بھی کام مفت میں تو کرتا نہیں، لہٰذا امریکی مذاکرات کاروں کا انداز سودے بازی والا تھا کہ اگر امریکہ پاکستان کی کشمیر پر حمایت کرے تو جواب میں پاکستان سے امریکہ کس طرح کی اعانت چاہے گا۔ اس پر نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا ’’ہم نے آدھا کشمیر خود کسی کی مدد کے بغیر آزاد کرایا ہے اور یہ کام ہم نے جنگ لڑ کر کیا ہے‘‘۔ اس سے مناسب جواب اور کیا ہوسکتا ہے ۔ اس میں انہوں نے دو نہایت اہم نکتے باور کرائے تھے۔
پہلا یہ کہ کشمیر جیسے معاملے منت سماجت اور دوسروں پر انحصار سے حل نہیں ہوتے اور دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان نے جیسے اپنے حق کے لئے پہلے جنگ کی تھی آئندہ بھی کشمیر کے لئے کسی جنگ سے گریز نہیں کرے گا۔ ہماری بدقسمتی کہ ہماری اپنی صفوں میں ایسے مشیران ’’با تدبیر‘‘ ہمیشہ موجود رہے ہیں جو ایک طرح سے جانتے بوجھتے یا پھر ’’مغربی دانش‘‘ سے متاثر ہو کر نادانی میں دشمن کی سہولت کاری پر آمادہ رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک طبقہ مسلسل یہ رٹ لگائے رکھتا ہے کہ کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ جنگ سے ممکن ہی نہیں۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے معاملے کو مسلم تشخص کے حوالے سے اجاگر نہ کیا جائے کیونکہ مغرب اس استد لال کو پسند نہیں کرتا۔ کشمیر کے مسلے کو کشمیری قومیت کی بنیاد پر اُجاگر کیا جانا چاہیے۔یعنی پاکستان بن جانے کے بعد بھی پاکستان کی اساس کو بالواسطہ یا بالاواسطہ ہر انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فلسطین میں آبادی کا تناسب مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دینے کی نیت سے یہودیوں کے حق میں بہتر بنانے والی عالمی طاقتوں کو برصغیر کی مسلم اکثریت کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم اور اسلامی تشخص کی بنیاد پر کشمیر کی جدوجہد آزادی ناگوار لگتی ہے اور یہاں پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بات کی وکالت کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع کو دیکھیں تو وہ بھی کم و بیش اسی طرح کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جن حالات سے گزر کر آج فلسطینی اپنے جائز حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اپنے ناجائز قبضے کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا ہے جبکہ پاکستان مسلسل ’’اخلاقی فتوحات‘‘ پر انحصار کئے ہوئے ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ماسوائے چین کے کبھی بھارت کے جھوٹ کے مقابل پاکستان کے سچ کو اہمیت نہیں دیں گی‘ پھر بھی پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں بڑھتے ہوئے بھارتی قدم روکنے کی کوئی عملی تدبیر کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جس علاقائی اور عالمی امن کو قائم رکھنے کی تمام تر ذمہ داری رضاکارانہ طور پر اکیلے پاکستان نے خود اپنے کاندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔
کشمیر پر بھارت کے ناجائز قبضے کی داستان برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے، گو کہ اس سے پہلے بھی کشمیر برطانوی ہندوستان میں دوہری غلامی کا عذاب سہہ رہا تھا ’یعنی ایک انگریز کی غلامی جو پورے برصغیر پر مسلط تھی اور دوسرے مقامی ڈوگرا راج کی غلامی‘ مگر برصغیر کی تقسیم کے ساتھ آزادی کی جو اُمید پیدا ہوئی تھی وہ بھارت کے قبضے میں رہ جانے والے علاقوں کے لوگوں کی حد تک پوری نہ ہوسکی۔
برصغیر کی تقسیم میں خود مختار ریاستوں کے الحاق کو بھی تقسیم کے بنیادی اصولوں کا پابند بنایا گیا تھا یعنی ریاستوں کے فرمانروا اس بات کے پابند تھے کہ اپنی ریاست کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ جغرافیائی ہم آہنگی‘ قربت اور پیوستگی کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کریں، یوں کشمیر کے بھارت کے ساتھ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن کشمیر کا حاکم پاکستان کے ساتھ 14 سو کلومیٹر سے زائد سرحد اور 80 فیصد سے زائد مسلم اکثریت کے باوجود بھارت سے ساز باز کر رہا تھا۔
27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے کشمیر میں فوج اُتار دی۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے پاک فوج نے ریاستی فوجوں سے لڑ کر آزاد کرائے۔ 21 جولائی 1949ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کراچی معاہدہ ہوا، جسے فائر بندی کا معاہدہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس معاملے پر مزید دو بڑی جنگیں 1965ء اور 1971ء میں لڑی گئیں۔
1971ء کی جنگ کے نتیجے میں جنگ بندی لائن آف کنٹرول میں بدل گئی یعنی پاکستان ایک قدم اور پسپا ہوگیا۔ لیکن اس دوران اقوام متحدہ کی اُن قراردادوں پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی جن میں استصواب رائے کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ 1999ء میں کشمیر پر ایک اور محدود پیمانے کی لڑائی ہوئی۔ پاک فوج نے کارگل اور دراس کی بلندیوں پر قبضہ کرکے بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں آنے والی واحد سڑک کو بند کردیا تھا لیکن اُس وقت کی حکومت امریکی دھمکیوں کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔ اس پسپائی نے پاکستان کی پوزیشن کو مزید خراب کیا۔
بھارتی فوج نے 1984ء میں کشمیر پر اپنے قبضے کو مزید مستحکم کرنے کے لئے سیاچن گلیشیر پر فوج اُتار کر 26 سو مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کرلیا جسے آج دن تک آزاد نہیں کرایا جاسکا۔ بھارت اور پاکستان کے معاملات پر اقوام متحدہ کے مقرر کردہ پہلے نمائندے سر اوون ڈکسن نے 1950ء میں ایک تفصیلی رپورٹ اقوام متحدہ میں جمع کرائی تھی جس میں سیاچن گلیشیر کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مندرجات کو اس قدر معتبر سمجھا جاتا ہے کہ 1958ء میں بھارتی مصنف پی ایل لکھن پال کی کتاب “Essential Documents and notes on The Kashmir Despute” میں بھی انہی معلومات کو درست قرار دیتے ہوئے شامل کیا گیا تھا۔
5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو دائمی شکل دینے کے سلسلے کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔ اس روز پورے کشمیر میں کرفیو لگا کر ریاست کو اُس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا گیا جو بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت کو جھانسہ دینے کے لئے بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دے رکھی تھی۔
بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 اور ذیلی شق 35-A کے تحت ریاست‘ مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے‘ اپنا الگ پرچم رکھنے اور قانون سازی کے اختیارات حاصل تھے گو کہ اس شق سے کشمیری عوام بدستور بھارتی ریاست کے غلام ہی رہتے لیکن اس شق کے باعث انہیں ریاست کی شہریت‘ جائیداد کے حصول اور بنیادی حقوق کے معاملات پر قانون سازی کا اختیار حاصل تھا۔ اس کے ذریعے وہ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو ہندوؤں کے حق میں کرنے کی کوشش سے باز رکھ سکتے تھے۔ لیکن اس آئینی ضمانت کے خاتمے کے بعد اب بھارت کو کشمیر میں مسلم اکثریت کے خاتمے کے لامحدود اختیارات حاصل ہو چکے ہیں اور اب تک حکومت ہند اٹھارہ لاکھ ریاستی ڈومیسائل جاری کر چکی ہے۔
جب ساری دنیا یہ کہتی ہے کہ افغانستان پر کوئی طاقت قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتی تو اُس کی وجہ ہے۔ آج بھی جب غیر ملکی افواج افغانستان سے رخصت ہو چکی ہیں غیر ملکی قبضے کے خلاف مسلسل جد و جہد کرتے ہوئے قربانی دینے والے جنگجو اُن لوگوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جو غیر ملکی قابض فوج کے ہاتھوں اپنے لوگوں کو قتل کراتے رہے ہیں۔ جد وجہد آزادی میں بھی اُن لوگوں کی کمی نہ تھی جو قائد اؑعظم کے بجائے نوآبادیاتی حاکموں کے وفادار تھے۔ عزت اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کے اصول رہتی دنیا تک وہی رہیں گے جو آغاز سے موجود ہیں۔
مقبوضہ کشمیر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر ہزاروں تقریریں کر دینے سے بھی آزاد نہیں ہو گا۔ فلسطین کے معاملے پر مسلم دنیا کے رہنماوں کی فصاحت و بلاغت کے شہکار آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں، لیکن ان سے فلسطین کی آزادی کی جانب ایک قدم کا فاصلہ بھی طے نہیں ہو پایا۔ دنیا کشمیر پر آپ کی تقاریر پورا دھیان لگا کر سنتی رہے گی اور عملی طور پر بھارت کی سہولت کاری بھی جاری رکھے گی اور پھر انجام کارعرب شاعر نزار قبائی کی یہ نظم ہی ہمارا مقدر ٹہرے گی۔
ہماری فی البدیہہ تقریروں کی برجستگی کا خمیازہ ہے
ہمارے سامنے……….
پچاس ہزار نئے خیمے پھیلا دئیے گئے ہیں۔
تحریر: غلام محی الدین
بشکریہ ایکسپریس نیوز