(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) بحرین اور صیہونی حکومت نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کیے تھے اس سے قبل ان ممالک کا مؤقف تھا کہ وہ صرف اسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے جب فلسطین سے متعلق تنازع حل ہو جائے گا۔
عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ روز بحرین نے بالآخر باضابطہ طور پرصہیونی ریاست کے لیےاپنے پہلے سفیر کی تعیناتی کی منظوری دیدی ہے جس کے بعد خالد یوسف ا لجلاہمہ مقبوضہ فلسطین میں ناجائز ریاست اسرائیل میں بحرین کےسفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے، خالد یوسف الجلاہمہ اس سے قبل امریکہ میں نائب سفیرکی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور بحرین کی سفارتی خدمات میں متعدد دیگر سینئر عہدوں پر بھی رہ چکے ہیں۔
غاصب ریاست میں بحرین کے سفیر کی تقرری کے حوالے سے رواں ہفتے ہی صیہونی وزیر خارجہ یائر لیپد نے اپنے دورہ روم کے دوران امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کے علاوہ اپنے بحرینی ہم منصب عبد اللطیف الزیانی سے بھی ملاقات کی تھی۔
واضح رہے کہ بحرین اور صیہونی حکومت نے 15 ستمبر 2020 کو امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں واشنگٹن میں تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ کیا گیا تھا جسے معاہدہ ابراہیمی کے نام سے جانا جاتا ہےجسکے بعددونوں ممالک کےمابین متعدد شعبوں میں ترقیاتی سمجھوتےبھی ہوئے تھےاس معاہدے کے بعد بحرین اب مشرق وسطیٰ کا چوتھا مسلم ملک بن گیا ہے جس نے سنہ 1948 میں قائم ہونے والے ملک اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا ہے حالانکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا تھا اور ان ممالک کا مؤقف تھا کہ وہ صرف اسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے جب فلسطین سے متعلق تنازع حل ہو جائے گا۔
اس سے قبل متحدہ عرب امارات، مصر اور اُردن بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔