(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) نفتالی بینیٹ بھی اپنے پیش رو بن یامین نیتن یاہو کی طرح فلسطینوں کے حوالے سے سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں اور وہ آزاد فلسطینی ریاست کے سخت مخالف ہیں۔
اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم تل ابیب کے نواحی علاقے رعنانا سے تعلق رکھنے والے 49 سالہ نفتالی بینیٹ نے ایک سیکولر گھر میں پرورش پائی تاہم ان کے بچپن میں ہی ان کا گھرانہ دھیرے دھیرے مذہب کی جانب مائل ہونا شروع ہو گیا جس کے بعد آج کے نفتالی بینیٹ ایک کٹر قدامت پسند یہودی سمجھے جاتے ہیں اور وہ یہودیوں کی روایتی مذہبی ٹوپی ‘کپا’ بھی باقاعدگی سے پہنتے ہیں, ان کے والدین امریکی شہریت رکھتے تھےتاہم ان کی زندگی کا ابتدائی حصہ اسرائیلی شہر حیفہ میں گزرا۔
انہوں نے بیت المقدس میں یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور گریجویشن کے بعد نوے کی دہائی میں سافٹ ویئر کمپنی شروع کی جو بعدازاں 2005 میں ایک امریکی کمپنی کو فروخت کر دی گئی ۔ اس کے بعد کئی برس نیویارک میں گزارے۔ وہاں انہوں نے "Cyota” کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر کام کیاجو اینٹی فراڈ سافٹ ویئرز تیار کرتی ہے البتہ بینیٹ نے اسرائیلی فوج کے ایلیٹ یونٹس میں ایک بریگیڈ کے کمانڈر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
اسرائیل واپسی پر بینیٹ نے سیاست کا رخ کیا اور وہ 2006ء سے 2008ء تک بنیامین نیتن یاہو کے دور میں چیف آف اسٹاف بھی رہے، بعد ازاں نیتن یاہو کی اہلیہ سارہ کے ساتھ اختلاف کے باعث انہیں لیکود پارٹی میں شمولیت سے روک دیا گیا۔
نومبر 2012ء میں بینیٹ کو (دی جیوش ہوم) پارٹی کا سربراہ چن لیا گیاجہاں انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں پارٹی کی قیادت کی جس نے پارلیمنٹ(کینسٹ) میں 12 نشستیں حاصل کیں جبکہ بینیٹ 19 ویں منتخب پارلیمنٹ میں وزیر معیشت، وزیر مذہبی امور اور بیرون ملک مقیم اسرائیلیوں کے امور کے وزیر بھی رہے۔
اسرائیلی حکومت کی موجودہ صورت حال میں آٹھ سیاسی جماعتوں کے مابین طے پانے والے حکومت سازی کے ایک غیر معمولی سمجھوتے کے تحت بینیٹ دو برس کے لیے وزیرِ اعظم ہوں گے جس کے بعد آئندہ دو برس کے لیےیش ایتید پارٹی کے رہنما یائر لیپد وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالیں گےیہ بھی واضح تبدیلی ہے کہ نفتالی بینیٹ اسرائیل کی تاریخ میں دائیں بازو کی مذہبی جماعت کے پہلے سربراہ ہیں جنہوں نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا ہے۔
سخت گیر، نسل پرست نفتالی بینیٹ، نیتن یاہو کی پالیسیوں کے حامی رہے ہیں اور 2019 سے 2020 کے دوران ان کی حکومت کے وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں وہ نیتن یاہو کی ہی طرح آزاد فلسطینی ریاست کے سختی سےمخالف اور فلسطینی ریاست کے قیام کو اسرائیل کے لیے خودکشی کے مترادف سمجھتے ہیں، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ اثر مغربی کنارے میں یہودیوں کی ناجائز آباد کاری کےحق میں ہیں۔
اسرائیلی سیاست میں شمولیت کے حوالے سےبھی بینیٹ کا کہنا ہے کہ 2006 کی اسرائیل، لبنان جنگ کی تلخیوں نے اُنہیں سیاست میں قدم رکھنے پر مجبور کیا۔بینیٹ کے اسرائیلیوں سے محبت اور فلسطینیوں کے خلاف شدت پسند نظریات کے بارہاموقعوں پر کھلم کھلا اظہار کے بعدخود اسرائیلی میڈیا اور تجزیہ کاروں نے انہیں مشرقِ وسطیٰ کے تنازع پر سخت گیر مؤقف اور قدامت پسند نظریات رکھنے والا ‘انتہائی قوم پرست’ یہودی سیاستدان قرار دیاہے۔
نفتالی بینیٹ ،بنیامین نیتن یاہو کی حکومتی کابینہ کا حصہ رہے ہیں لیکن نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹادینا چاہتے تھے جبکہ یائر لیپدکو بھی وزارت کی کرسی پر بیٹھتے نہیں دیکھنا چاہتےلیکن حالات کےمطابق واضح ہوا کہ نیتن یاہو حکومت بنانے میں یوں بھی کامیاب نہیں ہوں گے البتہ یائر لیپد کی جماعت مارچ میں ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کے بعد دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس کے باعث مجبورا بینیٹ کو یائرلیپد کے ساتھ سیاسی معاہدہ کر نا پڑا۔
نفتالی بینیٹ کے اس اقدام کو نیتن یاہو کے حامی، غداری اور ووٹرز کے ساتھ دھوکہ بازی قرار دےرہے ہیں جس کے آگے نفتالی بینیٹ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو سیاسی بحران سے بچانے کے لیے اپنے مخالف (اعتدال پسند یائر) سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔
اسرائیل کی آٹھ جماعتوں پر مشتمل اس اتحادی حکومت میں بعض جماعتیں فلسطین کے حوالے سے سخت مؤقف اور دو ریاستی حل کی کٹر مخالف ہیں جب کہ عرب اور بائیں بازو کی بعض جماعتیں جن میں عرب پارٹی ‘رام’ اور دیگرشامل ہیں دو ریاستی حل کی حمایتی ہیں جس کے باعث اسرائیلی ریاست کی فلسطینیوں کے مخالف اپنی پالیسی کو آگے بڑھانا اسرائیل کے نئے وزیراعظم کے لیے بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہےجبکہ مبصرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں فلسطین کے معاملے پر حکومت میں تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔
تحریر: عائشہ کرن