(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ )گذشتہ ماہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر گیارہ روزہ جنگ کے خاتمہ کے بعد یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ فلسطینی مزاحمت پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے میں اہم کردا ر ادا کر رہی ہے۔
جب بات فلسطینی مزاحمت کی ہو تو اس سے مراد فلسطین کی وہ تمام مزاحمتی جماعتیں بشمول حماس، اسلامی جہاد اور ان کے جہادی و عسکری ونگ ہیں جن میں القسام بریگیڈ، الصابرین، القدس بریگیڈ اور دیگر شامل ہیں۔
جب مقبوضہ بیت المقدس اور غزہ کی پٹی پر مسلسل گولہ بار ی کی جا رہی تھی اور اسرائیل نے جارحیت کی تمام حدود پار کر دی تھیں اس موقع پر دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج اور مظاہرے ہو رہے تھے۔
گذشتہ ماہ فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کی جانے والی گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جہاں دنیا کی دیگر اقوام نے احتجاج کیا وہاں دنیا میں ایک ایسی قوم بھی موجود ہے کہ جو خود بھی فلسطینی عوام کی طرح ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی ہے البتہ فلسطین مزاحمت کی طرح اس قوم نے بھی مزاحمت کا دامن تھام رکھا ہے اور ظالم وجابر دشمن کے سامنے سر جھکانے کی بجائے سر اٹھا کر مقابلہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔
جی ہاں یہ قوم اہل یمن ہیں, یمن میں بسنے والی یہ قوم مسلمان اقوام سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ اس پر عرب صہیونیوں نے یلغار کر رکھی ہے۔
یمن مسلسل پانچ سال سے ایک برادر اسلامی ملک کے ہاتھوں حملوں کا نشانہ بنتا چلا آ رہاہے, یہاں قحط کی صورتحال ہے, یمن پر مسلسل بمباری اور خطر ناک بارودی مواد کے مہلک اثرات میں جہاں انسانی زندگیاں موت کی نیند سو رہی ہیں وہاں دنیا میں آنے والی نئی زندگیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد اقسام کی وبائیں جنم لے چکی ہے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کی بدترین قلط کا سامنا ہے۔
غزہ جس طرح پندرہ سال سے بدترین محاصرے میں ہے اسی طرح یمن بھی عربی صہیونی محاصرے کا شکار ہے۔ غزہ میں بیس ملین عوام کو زندہ جیل بنا دیا گیا ہےیہاں بھی دسیوں ہزار یمنیوں کو محصور کردیا گیا ہے۔ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ سمندری یا زمینی راستہ سے یمن کے مظلوم عوام تک کوئی مدد پہنچائے۔
غرض یہ کہ یمن کے عوام پر زندگی تنگ کر دی گئی ہےانسانی حقوق کے نعرے لگانے والی مغربی حکومتیں اور عالمی ادارے بھی خاموش ہیں عالمی برادری کی بے حسی کا لگ بھگ یہ حال مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال پر بھی ہے کہ جس کی ذمہ دار بھارت کی جارح ریاست اور حکومت ہے۔
یمن پر جاری جارحیت کی قیادت یمن کا پڑوسی اور مسلمان ممالک کا برادر ترین اسلامی ملک سعودی عرب کررہاہے اس کے ساتھ اتحاد میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک ہیں کہ جو اپنا اسلحہ سعودی حکومت کو فروخت کرنے کی غرض سے اس جنگ میں یمن کے عوام کے خلاف کھڑے ہیں کیونکہ انہیں اپنے اسلحہ کی فروخت اور معاشی فوائد نظرا ٓرہے ہیں, سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس نے دو سال قبل ہی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بن سلمان کے ساتھ بیٹھ کر ایک بہت بری اسلحہ فروخت کرنے کی ڈیل کی تھی۔
بہر حال یہ تو بات ہے امریکہ، اسرائیل اور ان کے عرب اتحادیوں کی کہ جو یمن میں جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں اور یمن کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں, اب یمن کے عوام کو دیکھئے کہ جو زندگی کی بے پناہ مشکل دور سے گزر رہے ہیں لیکن عزت وشرافت پر کسی قسم کی سودے بازی کرنے کو تیار نہیں۔
یہ یمن کے باشرف اور باغیرت عوام ہیں کہ جو فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست کے حملوں کے بعد لاکھوں کی تعدا د میں سڑکوں پر نکل آئے, اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی پرواہ نہیں کی فلسطین کا پرچم اٹھائے یمنی مائیں اور بچے سڑکوں پرنکل آئے اب ذرا دیکھئے ان عوام کی قیادت کرنے والوں کو۔
یمن کی سب سے بڑی جماعت انصار اللہ کے قائد عبد المک حوثی نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کے لئے جمع ہونے والے لاکھوں افراد سے خطاب کرتے ہوئے تاریخی جملے اداکئے اور کہا کہ ’’اگر یمن کے پاس ایک روٹی ہو تو ہم وہ بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ تقسیم کرنے کو تیار ہیں ‘‘ ۔ عبد الملک حوثی کا یہ جملہ واضح طور پر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔
عبد الملک دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگرچہ پوری دنیا نے ہم پر محاصرے پر چپ سادھ رکھی ہے لیکن ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور حالانکہ ان حالات میں کہ جب خود یمن کے ان مظلوموں پاس کھانے پینے کی اشیاء کا قحط ہے ایسے حالات میں یہ کہنا کہ ایک روٹی بھی ہو تو ہم اس کو بھی فلسطینی بھائیوں کے ساتھ تقسیم کریں گےیہ بات یمن کے عوام اور قیادت کی مسئلہ فلسطین کے ساتھ لگاؤ اور وابستگی سمیت عقیدت کو ظاہر کر رہی ہے۔
عبد الملک حوثی کا یہ جملہ دنیا پر عیاں کر رہا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے۔ یمن کے اس پر عزم اور باوقار قائد کا یہ جملہ جہاں مظلوم فلسطینیوں کے لئے قوت بخش ہے وہاں پوری دنیا کے ہر بے ضمیر انسان اور حکومت اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے بڑے بڑے عالمی اداروں کے چہروں پر ایک زور دار تھپڑ کی مانند ہے کہ جس کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ یہ یمن کے باشرف لوگوں کا افتکار ہے کہ وہ اپنی ایک روٹی کو بھی فلسطینیوں کے ساتھ تقسیم کرنے کو باعث فخر سمجھ رہے ہیں۔
افسوس ہے ان عرب دنیا کے حکمرانوں اور ارب و کھرب پتی لوگوں پر کہ جن کے پاس ملکوں سے زیادہ دولت موجود ہے لیکن وہ اس بات کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہے چہ جائیکہ وہ فلسطینی عوام کی عملی مدد کرتے۔ یمن کے اس باوقار قائد نے فلسطینی مزاحمت کو اپنی ہر طرح کی مدد کی پیشکش کی اور کہا کہ یمن کے مجاہدین تیار ہیں کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ہمراہ مزاحمت میں شریک ہوں۔
حالیہ دنوں فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس کے یمن میں موجود ترجمان نے یمن کی سب سے بڑی جماعت انصاراللہ کے رہنماؤں سے ایک ملاقات کی ہے اور یمن کے قائد اور عوام کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت اور فلسطینیو ں سے محبت کے جذبات پر شکریہ ادا کیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطین کے عوام بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور فلسطینی عوام آپ کی شکر گذار ہے۔
یقینا حماس اور انصاراللہ کے مابین ہونے والی اس ملاقات اور جذبات نے دونوں مظلوم اقوام کو ایک نیا جوش او ر ولولہ عطا کیا ہے اور ساتھ ساتھ دنیا کی ہر اس بے ضمیر ظالم و جابر حکومت او ر حکمرانوں کے منہ پر ایک اور زور دار تھپڑ رسید کر دیا ہے۔
آج فلسطینی عوام یمن کے عوام کے شکر گذار ہیں حالانکہ یمن کے عوام خود فلسطینی عوام کی طرح عربی صہیونزم کے ظلم اور بربریت کا شکار ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان