(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) فلسطینی قوم نے اپنے زور بازوپر غاصب صہیونی ریاست کے خلاف ایک عظیم کامیابی حاصل کی ہےاور اس فتح نے ثابت کر دیا ہے کہ صہیونی رژیم کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا واحد موثر ذریعہ مسلح جدوجہد اور مزاحمت ہے۔
غزہ کے خلاف حالیہ بارہ روزہ صہیونی جارحیت میں فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی عظیم فتح نہ صرف میدان جنگ میں ان کی بڑی کامیابی تھی بلکہ سیاسی اور سفارتی میدان میں بھی اسلامی مزاحمت کی عظیم فتح ثابت ہوئی ہے، اس فتح کے نتیجے میں فلسطینی گروہ آپس میں متحد ہوئے ہیں اور صہیونی سازشوں کے خلاف ایک صفحے پر آئے ہیں۔ خاص طور پر سینچری ڈیل اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے تعلقات معمول پر لانے کی مہم کے مقابلے میں اب تقریباً تمام فلسطینی دھڑے ایک موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔
اس وقت علاقائی اور عالمی رائے عامہ غاصب صہیونی رژیم کے خلاف شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں کی قسمت میں صرف ذلت اور رسوائی ہی لکھی جائے گی۔
صہیونی ریاست سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی وجوہات
بعض عرب ممالک کی جانب سے غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کی بنیادی وجہ امریکہ کی وسیع اور غیر مشروط حمایت ہے۔ اس کی دوسری بڑی وجہ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے خود کو اقتدار میں باقی رکھنے کی خواہش تھی جبکہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور بعض عرب حکومتوں کے درمیان دوستانہ تعلقات میں تیزی آنے کی تیسری بڑی وجہ ان عرب ممالک کے اندر موجود مختلف قسم کے بحران تھے۔ اس کی چوتھی بنیادی وجہ مختلف عرب ممالک کے درمیان موجود اختلافات اور عرب حکمرانوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اسلامی مزاحمتی محاذ کو شکست دینے میں ناکامی بھی ان کی جانب سے تل ابیب کی جانب جھکاؤ پیدا کرنے کا سبب بنی ہے۔
سینچری ڈیل کا ذلت آمیز معاہدہ
سینچری ڈیل نامی معاہدہ مسئلہ فلسطین سے متعلق تاریخ میں تعصب آمیز ترین اور انتہائی جانبدارانہ معاہدہ ہے جس میں حتیٰ کہ فلسطینیوں کے بنیادی ترین حقوق سے مکمل طور پر چشم پوشی کی گئی ہے جبکہ صہیونی رژیم کے تمام مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
سینچری ڈیل کے اثرات بہت وسیع ہیں جن میں علاقائی اور عالمی سطح پر اثرات شامل ہیں۔ اس معاہدے کے تمام تر نتائج غاصب صہیونی رژیم خاص طور پر بنجمن نیتن یاہو کی ذات کو مدنظر قرار دے کر مختص کئے گئے ہیں۔ اس معاہدے کے مالی اور اقتصادی فائدے بھی غاصب صہیونی رژیم سے مخصوص ہیں۔ علاقائی سطح پر سعودی عرب سینچری ڈیل کی بھرپور حمایت میں مصروف ہے جبکہ بعض دیگر عرب حکومتیں بھی اس میں پیش پیش ہیں۔
اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے والوں کا انجام
غاصب صہیونی ریاست سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے والی حکومتوں کا انجام سب کیلئے واضح ہے۔ سب سے پہلا نتیجہ کچھ عشرے بعد غاصب صہیونی رژیم پر ان کے شدید اقتصادی انحصار کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یہ انحصار اس قدر شدید ہو گا کہ یہ عرب ممالک اقتصادی میدان میں اپنے پاؤں پر ہر گز کھڑا نہیں ہو پائیں گے۔ اس کی چند مثالیں مصر، اردن اور فلسطین اتھارٹی میں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے والے ممالک کیلئے سامنے آنے والا دوسرا نتیجہ سکیورٹی شعبے میں ہو گا۔ تیسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کی خودمختاری مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جائے گی اور یہ ممالک خطے میں امریکہ اور غاصب صہیونی حکام کے ہاتھ میں محض ایک کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گے۔
سینچری ڈیل کا انجام
سینچری ڈیل امت مسلمہ اور عرب دنیا کے خلاف امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم کا آخری تیر تصور کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ درحقیقت مسئلہ فلسطین اور فلسطین کاز کے خاتمے کی ایک نئی کوشش ہے۔ ایسی کوشش جو سو فیصد اسرائیلی مفادات پر استوار ہے اور اس میں حتیٰ کہ جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حق کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
اس معاہدے میں غاصب صہیونی رژیم کو فوجی طاقت رکھنے اور عالمی سطح پر سیاسی حمایت سے برخوردار ہونے کا حق دیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سینچری ڈیل کا انجام بھی جدید مشرق وسطی نامی منصوبے کی طرح ہو گا جو جارج بش جونیئر نے 2001ء میں شروع کیا تھا اور آخرکار شکست اور ناکامی سے دوچار ہوا۔
نتیجہ
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں کی جانب سے غاصب صہیونی ریاست سے دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے کا مسئلہ فلسطین پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا کیونکہ ان ممالک کے حکمران کبھی بھی مسئلہ فلسطین میں بنیادی کردار کے حامل نہیں رہے ہیں۔ لہذا ان اقدامات کا فلسطین میں جاری اسلامی مزاحمتی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ فلسطینی قوم نے اپنے زور بازوپر غاصب صہیونی ریاست کے خلاف ایک عظیم کامیابی حاصل کی ہےاور اس فتح نے ثابت کر دیا ہے کہ صہیونی رژیم کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا واحد موثر ذریعہ مسلح جدوجہد اور مزاحمت ہے۔ لہذا علاقائی اور عالمی رائے عامہ اسلامی مزاحمت کے حق میں ہے اور سینچری ڈیل اور سازباز کی پالیسی کے شدید مخالف ہے۔ لہذا بہت جلد یہ شیطانی منصوبہ بھی تاریخ کے کوڑے دان میں دفن کر دیا جائے گا۔
تحریر: مجتبی شاہ سونی
بشکریہ: اسلام ٹائمز