(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں غاصب صہیونی ریاست کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کو حاصل ہونے والی اہم کامیابیوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ خداوند تعالیٰ نے اس سال 21 مئی کے دن فلسطینیوں کو بھی عظیم کامیابی عطا کی ہے، لہذا ہم اگلے برس سے ان دنوں میں دو جشن منائیں گے۔
حال ہی میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے 25 مئی 2000ء میں جنوبی لبنان سے غاصب صہیونی رژیم کی پسپائی کی سالگرہ کے موقع پر جشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی رژیم کے سابق اعلیٰ سطحی عہدیدار اسحاق شامیر کے بقول جنوبی لبنان سے صہیونی فوج کی پسپائی اسرائیلی ریاست کے وجود اور بقاء کیلئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوا ہے اور اس کی نابودی کا باعث بنے گی۔
جنوبی لبنان میں صہیونی ریاست کی عبرتناک شکست
غاصب صہیونی ریاست نے 1978ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے لبنان کے جنوبی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس آپریشن میں 25 ہزار صہیونی فوجی شامل تھے، جو پوری طرح جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے۔ اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 425 کے ذریعے صہیونیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد لبنان کی سرزمین ترک کر دے اور لبنان میں امن فوج بھی تعینات کر دی، لیکن 6 جون 1982ء کے دن صہیونی فوج نے زمین، ہوا اور سمندر سے وسیع فوجی حملہ شروع کر دیا اور کسی مزاحمت کا سامنا کئے بغیر تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے بیروت کے دروازے تک آن پہنچی اسی طرح صہیونی فوج نے بیت المقدس کے بعد دوسرے عرب اسلامی ملک کے دارالحکومت کا محاصرہ کر لیا۔
ایسے حالات میں جب دارالحکومت سمیت لبنان کا 50 فیصد رقبہ صہیونی دشمن کے زیر قبضہ تھا، پی ایل او کے تمام اعلیٰ سطحی ذمہ داران لبنان سے نکل کر تیونس چلے گئےجبکہ دوسری طرف لبنان اور فلسطین میں قابض ریاست کے خلاف مزاحمت نے جنم لیا۔ اسی مزاحمت نے اگلے چند سالوں میں غاصب صہیونیریاست اسرائیل پر کاری ضربیں لگائیں اور مزاحمتی تحریک نے 25 مئی 2000ء میں صہیونی فوج کو انتہائی ذلت اور رسوائی کے عالم میں جنوبی لبنان سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیااور صرف چند محدود علاقے رہ گئے ہیں جواب بھی صہیونی رژیم کے قبضے میں ہیں۔ اس دن کے بعد سے صہیونی ریاست کے حکمرانوں نے فتح اور کامیابی کا منہ نہیں دیکھا اور اسے مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہےالبتہ بعض حلقے جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی کو اسلامی مزاحمت کا خاتمہ تصور کر رہے تھے لیکن اس کے بعد اسلامی مزاحمت نے نیا رخ اختیار کر لیا۔
33 روزہ جنگ
جولائی 2006ء کے آغاز میں جب اسرائیل کی غاصب صہیونی فوج نے لبنانی قیدیوں کو آزاد کرنے سے انکار کر دیا تو حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے مقبوضہ فلسطین کی ایک سرحدی چوکی پر حملہ کرکے دو صہیونی فوجیوں کو قیدی بنا لیا، حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے صہیونی حکام سے ان دو فوجیوں کی آزادی کے بدلے اپنے چار قیدی کمانڈرز سمیر قنطار، نسیم نصیر، یحییٰ سخاف اور علی فراتن کی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔
دوسری طرف صہیونی حکام نے اس مطالبے کے بدلے لبنان پر فوجی حملہ کر دیا اور یوں 33 روزہ جنگ کا آغاز ہوگیا، اس وقت کے صہیونی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے لبنانی قوم اور حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ آپ کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
13 جولائی 2006ء کے دن صہیونی فضائیہ نے بیروت ہوائی اڈے کو بمباری کا نشانہ بنایا اور یوں باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی، اسی طرح پہلے مرحلے پر صہیونی فضائیہ نے وسیع پیمانے پر بمباری کرکے لبنان کا انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا، اگرچہ صہیونی فوج عام شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہی تھی لیکن حزب اللہ لبنان صرف صہیونی فوجیوں اور فوجی ٹھکانوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بناتی رہی اور جنگ سے اگلے دن ہی یعنی 14 جولائی 2006ء کے دن حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے جنگی بحری جہاز کو میزائل سے نشانہ بنایابدلے کے طور پر صہیونی فوج نے لبنان میں اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی ، تاہم اس جنگ میں مزاحمت کی بہترین مثال "بنت الجبیل” محاذ پر حزب اللہ لبنان کے مجاہدین نے پیش کیا، جہاں انہوں نے کئی دنوں تک شدید حملوں کے باوجود صہیونی فوج کو پیش قدمی نہ کرنے دی۔
22 روزہ جنگ
27 دسمبر 2008ء کے دن غاصب صہیونیریاست اسرائیل نے فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس موجود میزائل کے ذخائر تباہ کرنے کی غرض سے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیااور یہ ظالمانہ جنگ 18 جنوری 2009ء تک جاری رہی، جس میں صہیونی فوج نے مختلف قسم کے غیر قانونی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جن میں فاسفورس والے بم اور کلسٹر بم بھی شامل تھے۔
اس 22 روزہ جنگ میں صہیونی فوج نے غزہ میں گھسنے کی بھرپور کوشش بھی کی لیکن ایسا نہ کر سکی آخرکارقابض فوج اس جنگ سے اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر پائی، جس کے نتیجے میں ایہود اولمرٹ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے، یہ جنگ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور غاصب صہیونی رژیم کے درمیان ٹکراؤکے نئے باب کا آغاز ثابت ہوئی۔
تحریر: محمد رضا تقی زادہ
بشکریہ: اسلام ٹائمز