(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) شیری مزاری نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں بنانے جانے والے 41 ممالک کے اسلامی ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم دہشتگردی پر بحث کریں بلکہ یہ وقت ہے کہ اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں اگر یہ اتحاد اسرائیل کی دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات شروع کرتا ہے تو وہ ممالک بھی اس میں شامل ہوں گے جو اس اتحاد کا حصہ نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری نے ویبنار میں اپنے خطاب کا آغاز فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی دہشتگردی کی مذمت کرتےہوئے کیا ، انھوں نے اسرائیلی دہشتگردی میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے شہداء کی شہادت پر اظہار تعزیت کرتےہوئے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے ۔
انھوں نے گذشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے اسرائیلی دہشتگردی پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پربھیجے گئے اپنے پیغام اسرائیلی دہشگردی کو تنازع کا نام دینے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع نہیں ہے یہ اسرائیلی دہشتگردی اور قتل عام ہے ۔
انھوںنے کہا سیکریٹری جنرل کی جانب سے صرف بیانات ناقابل قبول ہیں ان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں کےخلاف اسرائیل کی منطم ریاستی دہشتگردی اور قتل عام کوروکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔
انھوں نے بتایا کہ مقبوضہ فلسطین میں ہونے والے حالیہ اسرائیلی دہشتگردی صرف فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز اور قتل عام تک نہیں رکی ہے بلکہ اب انھوں نے مذہب اسلام کو اپنا ہدف بنایا ہے یہ سب سامنے ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے رمضان المبارک کے مہینے میں مسجد الاقصیٰ میں اذان دینے پر پابندی عائد کی جو نا صرف فلسطینیوں کے خلاف ہے بلکہ دین اسلام کے بھی خلاف ہے ،اسرائیل دین اسلام اور دیگر مذاہب کو اسرائیل سے ختم کرنے کیلئے ناقابل قبول اقدامات کررہا ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ جنیوا کنویشن کے تحت ہر اس طاقت کو جس نے کسی ملک پر قبضہ کر رکھا ہو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دے لیکن اسرائیل نے وہی طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے جو بھارت نے کشمیر میں رواں رکھا ہوا ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ نسلی عصبیت بین اقوامی قوانین کے تحت جرم ہے لیکن فلسطینیوں کے خلاف اس کا کھلے عام مظاہرہ کیا جارہا ہے ، نازی ہٹلر کے بعد ہم نے دیکھا کے عالمی برادری خاص طورپر مغربی معاشرے نے اقوام متحدہ پر زوردیا کہ وہ (Right To Protect ) کو اپنے بنیادی قوانین میں شامل کریں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں مسلسل انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے ساتھ فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے اور یہ سب اسلئے جاری ہے کیونکہ طاقتور ممالک اسرائیل کے حق میں خاموش ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ یہ معاملہ اب یہاں تک نہیں رہا ہے بلکہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی اب اپنے جرائم کو فخر کے ساتھ بلا خوف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شیئر کررہے ہیں اور پوری دنیا کو بے خوفی سے بتارہے ہیں کہ ہم یہاں نسل کشی کررہے ہیں جو انہائی تشویشناک ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ جنیوان کنوینش کے آرٹیکل 49 کے تحت اسرائیلی بستیاں غیر قانونی ہیں اس صورتحال میں یا تو بین لاقوامی برادری کو سختی سے بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کرانا چاہئے یہ پھر صاف الفاظ میں بتادیا جانا چاہئے کہ یہ قوانین متعلقہ ہیں ۔
انھوں نے اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی ) کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ او آئی سی کا کردار کیا ہے ؟ او آئی سی کے قیام کا بنیادی مقصد ہی القدس تھا اور او آئی سی بھی اس حوالے سے خاموش ہے
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلافات ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین کے حوالے سے پوری قوم تمام سیاسی اور جماعتیں اور عوام متحد ہیں ۔
انھوں نے او آئی سی کے ممبر ممالک جنہوں نے حالیہ ہی اسرائیل کو تسلیم کیا ہے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طورپر قابض صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لیں ورنہ بیانات اور مذمت سے فلسطینیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینا ایک طاقتور اقدام ہونا جس کا اثر ہوگا بصورت دیگر بیانات بے اثر ہیں ۔
انھوں نے سعودی عرب کی سربراہی میں بنانے جانے والے 41 ممالک کے اسلامی ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقت نہیں ہے کہ ہم دہشتگردی پر بحث کریں بلکہ یہ وقت ہے کہ اسرائیلی دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات کئے جائیں بلکہ اگر یہ اتحاد اسرائیل کی دہشتگردی کے خلاف عملی اقدامات شروع کرتا ہے تو وہ ممالک جو اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے خاص طورپر ایران اس اتحاد کا بخوشی حصہ بننے کیلئے تیار ہوگا ، انھوں نے مزید کہا کہ یہ ہیں وہ طاقتور اقدامات جس کے ذریعے ہم اسرائیل کو سخت جواب دے سکتے ہیں ، جب یہ اتحاد دہشتگردی کے خلاف بنایا گیا ہے تو کیوں نہیں یہ اسرائیلی ریاستی دہشتگردی کو روکنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ وقت کانفرنسز ،ویبنار ،اور احتجاج کا نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات کا وقت ہے یہ مسلم امہ کا مشترکہ مسئلہ ہے یہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کا مسئلہ ہے ۔