مجلس وحدت المسلمین اور ملی یکجہتی کونسل نے مشترکہ طور پر تقریب کا انعقاد کیا، موضوع تھا ’’قبلۂ اول کی آزادی قریب ہے‘‘۔ تقریب کو ترتیب دینے میں اسد نقوی بڑے متحرک تھے۔
ملتِ اسلامیہ کے اکابرین راجہ ناصر عباس اور لیاقت بلوچ نے حالات پر بہت غور کیا ہوگا کہ انہوں نے مستقبل کے نقشے ہی کو موضوع گفتگو بنا ڈالا ورنہ ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں کے حالات بہت اچھے نہیں، ان کے وطن پر کوئی اور قابض ہے، انہیں چھوٹی سی جگہ پر دھکیل دیا گیا ہے، آدھے فلسطینی تو دنیا میں دربدر ہو چکے، کیا ظلم ہے کہ وہ اپنے ہی وطن میں مظلوم ہیں، کیا دکھ ہے کہ دھرتی رو رہی ہے، ہوائیں نوحہ لکھ رہی ہیں۔
مسلمان ملکوں کے حکمران کیا ہیں کہ ان کی تمام تر حکمرانیاں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں، مسلمان عوام مجبور ہیں، انہیں بارڈرز کی قید نے بےبس کر رکھا ہے، وہ اپنے بھائیوں پر ہونے والے ستم کو یاد کرکے ایسے جیتے ہیں کہ روز مرتے ہیں اور ان کے غلام حکمران ایسے جیتے ہیں کہ زندگی شرمسار ہو جاتی ہے، تختوں پر بیٹھی ہوئی زندہ لاشیں، ظلم پر بولنا تو درکنار ظالم کو تسلیم کرتی جا رہی ہیں۔
یہ مسلمان کی شان نہیں، وہ کٹ تو سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا۔ بزدلی مومن کی میراث نہیں، مومن تو ہر لمحے موت کے لئے تیار رہتا ہے۔ ایک ہزار سال میں اُمت مسلمہ میں اقبالؒ سے بڑا فلاسفر پیدا نہیں ہوا مگر اکثر مسلمان ملک اسے نظرانداز کر دیتے ہیں حالانکہ اس نے اقوامِ متحدہ کے قیام سے پہلے کہہ دیا تھا کہ:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
بصد افسوس کہ امتِ مسلمہ اقبالؒ کو سمجھنے سے قاصر رہی، مخالفین نے پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کئے، مسلمان علاقوں کو نئے ملکوں کا روپ دینا شروع کیا اور جنگ عظیم دوم کے بعد منصوبہ بندی کر لی گئی کہ کس طرح مسلمان ملکوں کو غلام رکھا جا سکتا ہے۔
مرضی کی تقسیم کرکے انہیں ملکوں کا روپ دے کر، نام نہاد آزادی بھی دے دی گئی۔ شاید آپ کو نام نہاد آزادی کا لفظ برا لگا ہو مگر حالت یہ ہے کہ افریقہ اور ایشیا کے اکثر مسلمان ملکوں پر استعماری طاقتوں کے غلاموں کی حکومت رہی، سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جیسے ہم انگریزی اور انگریز کے نظام سے جان نہیں چھڑوا سکے ویسے ہی افریقی ملک اپنے آقاؤں کی غلامی، نظام اور زبان سے جان نہیں چھڑوا سکے، رہ گئے عرب حکمران تو وہ امریکہ اور اسرائیل کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ مسلمان حکمران غافل ہیں، عوام جاگ رہے ہیں یا پھر ایران اور پاکستان اوروں کو جگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے 75برسوں سے مسلمان ظلم کی عجیب چکی میں پس رہے ہیں۔ جب سے اقوامِ متحدہ بنی ہے مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، کبھی بیٹھنا اور سوچنا کہ تمہارے کتنے بہن بھائیوں کو سربیا اور بوسنیا میں موت کے گھاٹ اتارا گیا، کبھی غور کرنا کہ کس طرح فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ظلم ہوتا ہے۔
صاحب! دو لمحے رک کر سوچنا برما، عراق، افغانستان، یمن اور شام میں مولی گاجر کی طرح کٹنے والے تمہارے بہن بھائی تھے، کس طرح لیبیا کو اجاڑا گیا، کیا تمہیں شامی بچے کی صدائیں بھول گئی ہیں جو کہتا تھا کہ ’’میں اپنے رب کو سب کچھ بتا دوں گا‘‘ کبھی مسلمانوں یا مسلمان ملکوں کو اقوامِ متحدہ سے انصاف ملا؟ کیوں؟ کیونکہ ویٹو پاور کے حامل پانچ ملکوں میں سے چار مسیحی اور ایک بدھ مت ہے۔
فرصت ملے تو غور کرنا کہ یورپ میں قدرتی وسائل نہیں ہیں، فصلیں اور پھل بھی نہ ہونے کے برابر، پھر یورپ کی حکمرانی کیوں ہے؟ وہ دولت مند کیوں ہیں؟ شاید اس لیے کہ وہ ظلم کی بنیاد پر افریقی اور ایشیائی ملکوں کے وسائل پر قابض ہیں، خام مال لوٹتے ہیں پھر غلام ملکوں کے عیاش حکمران لوٹی ہوئی دولت سے یورپی ملکوں کو آباد کرتے ہیں، کبھی مسلمان حکمرانوں میں ایمان کی دولت ہوا کرتی تھی، اب دولت ایمان بن چکی ہے۔ تمہارا بی سی سی آئی ناکام بنا دیا جاتا ہے مگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ڈالر کا سورج چمکتا رہتا ہے۔
تقریب میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر (مہرالنسا) شیریں مزاری نے بہت سے کڑوے سچ بولے۔ القدس کی اہمیت کو اجاگر کیا، اقوام متحدہ اور او آئی سی کے افسوسناک کردار کو بھی واضح کیا، ڈاکٹر مزاری نے کہا کہ ’’ہم فلسطین پر اپنا موقف بدلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، لچک دکھانے سے کشمیر پر موقف جاندار نہیں رہے گا‘‘ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ’’انقلاب ایران سے پہلے مسئلہ کشمیر کے ساتھ مسلمان حکمران غیر سنجیدہ تھے، امام خمینیؒ نے اس مسئلے میں جان ڈالی‘‘ ایرانی آج بھی یوم القدس کو نہیں بھولتے۔
خطۂ عرب کے مسلمان ملکوں کی کمزوریوں کے باوجود گریٹر اسرائیل کا خواب پورا نہیں ہو سکا، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے مسئلہ فلسطین کو عالمی امن کے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان قرار دیا۔ پاکستان میں کئی سیاسی تحریکوں کا حصہ رہنے والے جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما لیاقت بلوچ نے جہاں ایک طرف استعماری قوتوں کے لتے لیے وہاں مسلمانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش بھی کی۔
فرحت اﷲ بابر، ڈاکٹر ثاقب اکبر، ناصر شیرازی اور مفتی گلزارنعیمی سمیت دیگر مقررین نے ظلم و جبر کی داستان کو نہ صر ف بیان کیا بلکہ حل کے نسخے بھی بتائے۔ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر یاد کرنے کا رواج امام خمینیؒ نے ڈالا۔ ایران نے تو فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے یکم نومبر 2019کو ایک جامع منصوبہ بھی اقوام متحدہ میں پیش کیا۔
مگر کبھی سوچنا کہ کیا فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنا صرف حماس اور حزب اﷲ کا کام ہے؟ جہاد تو سب مسلمانوں پر فرض ہے، اسی لئے یوم القدس تمہیں پکار رہا ہے، تمہارے مظلوم بہن بھائیوں کے آنسو تمہاری غیرت کے منتظر ہیں۔ بقول اقبالؒ:
عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث
مومن نہیں، جو صاحبِ ادراک نہیں ہے
تحریر مظہر برلاس
بشکریہ جیو نیوز ویب سائٹ