(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) عالمی عدالت انصاف نے کہا ہے کہ ’جب بھی کسی ریاست کی کسی صورتحال کو پراسیکیوٹر کے دفتر میں تحقیقات کے لیے بھیجا جاتا ہے تو اس بات کا تعین کر لیا جاتا ہے کہ تفتیش شروع کرنے کیلئے کوئی معقول بنیاد موجود ہے تو ادارہ اس بات کا پابند ہے کہ اس معاملے پر تحقیق کا کام شروع کردے۔‘
بین الاقوامی فوجداری عدالت کی چیف پراسیکیوٹر فتوؤ بینسودا نے بدھ کے روز جاری اپنے بیان فلسطین پر قابض صیہونی ریاست کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغازکرنے کا اعلان کردیا ہے ۔
اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف تحقیقات آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور بغیر کسی خوف اور حمایت کے کی جائے گی جس میں خصوصی طورپر 13 جون 2014 سے لے کر اب تک کے اسرائیل کے زیرِ قبضہ مقبوضۃ غربِ اردن، مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور محصور شہر غزہ میں ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا جائے گا۔
عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی)کی چیف پراسیکیوٹر نے مزید بتایا ہے کہ صیہونی ریاست کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کیلئے 2019 میں مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ میں صیہونی فوجی کارروائیوں اور مقبوضۃ مغربی کنارے میں صیہونی آباد کاری کی سرگرمیاں ٹھوس جواز مہیا کرتی ہیں کہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کیلئے تحقیقات کا آغاز کیا جائے ۔
عالمی عدالت انصاف کی جانب سے جاری بیان پر صیہونی ریاست نے فوجداری عدالت کی جنگی جرائم کی تحقیقات کے آغاز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رکن نہ ہونے کی وجہ سے عدالت کا اسرائیل کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی ۔
واضح رہے کہ عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیل کے اعتراض پر گزشتہ ماہ ہی فیصلہ دیا تھا کہ اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال پر اختیار حاصل تھا جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ کے دوران قبضہ کیا ہے۔ججوں نے اپنے فیصلے میں مزید کہا تھا کہ ان کا فیصلہ ہیگ میں قائم عدالت کی بنیاد رکھنے والے دستاویزات کے دائرہ اختیار کے اصولوں پر مبنی ہے اور اس سے ریاست یا قانونی حدود کا تعین کرنے کی کسی کوشش کی ضرورت نہیں۔