یہ درست ہے کہ اسرائیل میں نسل پرستی اتنی واضح شکل کی نمائش نہیں کرتی جو جنوبی افریقہ میں موجود تھی، جہاں عوامی مقامات پر مختلف اقوام کو واضح انداز میں الگ الگ رکھنے کے لیے علامات نصب کی جاتی تھیں۔
لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینوں کی زندگی کے ہر پہلو پر مکمل قابو پانے کے لیے زیادہ پیچیدہ نظام تیار کر لیا ہے جس میں نو آبادیاتی تعصب کو ضوابط اور انفراسڑکچر کے ذریعے لاگو کیا گیا ہے تاہم یہ پالیسیز اپارتھائیڈ کی قابل اعتراض اور غیر انسانی پالیسیوں سے کم سنگین نہیں۔
اس کی ابتدا فلسطینیوں کو اس علاقے سے ختم کرنے سے ہوتی ہے جس میں 1948 – 1947 کے دوران فلسطینی آبادی کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ یہاں سے منتقل ہو گیا البتہ یہ محض ایک تکلیف دہ تاریخی یادداشت نہیںبلکہ ایک جاری اور مسلسل حقیقت ہے اوریہ حقیقت آج مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی تقسیم، اسرائیلی بستیوں، فوجی چوکیوں اور صرف اسرائیلیوں کے لیے بنائی جانے والی شاہراہوں کے ذریعے بکھری ہوئی آبادیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
وہ فلسطینی جو اپنی سرزمین پر مقیم رہے اور پھر اسرائیلی شہری بنے وہ اپنی قومی شناخت کی قیمت پر بنی ریاست میں دوسرے درجے کے شہریوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کو وطن واپسی کا حق دینے سے انکار کر دیا گیا ہے جبکہ یہودی نسل کے کسی بھی شہری کے لیے شہریت اور آباد کاری کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے۔ فلسطینیوں پر اس حد تک کنٹرول کو برقرار رکھنا اور یہودی آبادی کو ہر قسم کا استحقاق دینا رضاکارانہ طور پر نہیں ہوا بلکہ قانون اور اقدامات کے ذریعے ہوا۔
فلسطینی معیشت کو جس طرح منصوبہ بندی سے برباد حالت میں رکھا گیا ہے اس کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ عشروں کی غیر ترقیاتی پالیسیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کا پیداواری ڈھانچہ تباہ کردیا ہے۔ فوجی حملوں نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے جبکہ فوجی پالیسیوں نے جغرافیائی اور معاشی تقسیم کو پختہ کر دیا ہے۔
رکاوٹوں کے ایک سلسلے نے مغربی کنارے کو منقطع جزیروں میں تقسیم کر رکھا ہے، جس کی وجہ وہ 600 سے زائد فوجی چوکیاں، داخلی دروازے، دیگر رکاوٹیں اور اسرائیلی آباد کاروں کے لیے تعمیر کردہ سڑکیں ہیں۔
فلسطینی معیشت کسٹم یونین کی وجہ سے اسرائیلی معیشت پر منحصر ہے جس میں آزادانہ پالیسیوں کی کوئی گنجائش نہیں، فلسطینی اسے اسیر معیشت قرار دیتے ہیں۔
مزید یہ کہ اسرائیلی حکام ہی فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی ایما پر تجارتی محصول وصول کرتے ہیں جسے انہوں نے منتقل کرنا ہوتا ہے لیکن دباؤ ڈالنے کے طور پر وہ اسے مستقل بنیاد پر روک لیتے ہیں۔ فلسطین کی برآمدات اور درآمدات اسرائیل کی بندرگاہوں اور گزر گاہوں کے ذریعے ہوتی ہے جس میں تاخیر اور حفاظتی اقدامات سے اخراجات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
مغربی کنارے میں بستیوں میں توسیع کی وجہ سے زمین اور قدرتی وسائل کو پہنچنے والے نقصان کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی میں معیشت کی صورت حال بہت بری ہو چکی ہےاور 13 سال کے محاصرے کے بعد 80 فیصد سے زیادہ آبادی کا انحصار اب امداد پر ہےجبکہ 80 فیصد سے زیادہ آبادی جس میں خاص طور پریونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کرنے والے نوجوان شامل ہیں، میں بے روزگاری کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے۔
اسرائیل کی عائد کردہ پابندیاں جیسا کہ کون سا سامان اور ٹیکنالوجی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں داخل ہو سکتے ہیں فلسطینیوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کر رہی ہیں، جن میں صحت کا شعبہ بھی شامل ہے۔
بہت سے ماہرین نے فلسطینیوں کی کووڈ19 وبا کے مقابلے کی صلاحیت کے معاملے میں اسرائیلی پالیسیوں جن میں اسرائیل کے ویکسینیشن پروگرام کی وجہ سے سامنے آنے والا امتیاز شامل ہے، کے نقصان دہ اثرات کا تجزیہ کیا ہے۔
بتسیلم کی رپورٹ کا نتیجہ فلسطینیوں کے لیے کوئی خبر نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو فلسطین اور جنوبی افریقہ کے سکالر اور فعال کارکن دہائیوں سے کہتے چلے آ رہے ہیں تاہم رپورٹ کی اشاعت کی اہمیت اسرائیل اور فلسطین کی صورت حال کی حقیقت کے بارے میں بحث شروع کرنے میں ہے۔
اس صورت حال پر زبان بند رکھوانے کی منظم مہم جاری ہے اور کوشش ہے کہ بحث شروع ہونے سے پہلے ہی اسے بند کروا دیا جائےاس حوالے یہ امر درست ہے کہ انسانی حقوق کی ایک اسرائیلی تنظیم نے وہی بات کی ہے جو فلسطینی کئی سال سے کہہ رہے ہیں۔
تاہم مسئلے کا ذکر کرنے سے بڑھ کر زیادہ فوری نوعیت کا معاملہ یہ ہے کہ اس ناانصافی کا ازالہ کس طرح کیا جائے۔ معاہدہ اوسلو اور دوریاستی حل کی تجویز پر زبانی جمع خرچ کی دو دہائیاں بعد فلسطینیوں کی صورت حال مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔