(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) خبر یہ ہے کہ مشہورمسلم ملک کے حکمران کا مشیر لندن سے تل ابیب پہنچا، کئی اہم بیٹھکیں ہوئیں اورخاص پیغام رسانی ہوئی۔ اس پر تل ابیب کے صحافیوں نے انتہائی سفید جھوٹ کالی سیاہی سے لکھ ڈالا کی حقیقی خلیجی ریاست کی محبت کے دباؤ میں آکر پاکستان کے اسرائیل بارے موقف میں نرمی آئی ہے۔
اللہ رے کیسی غلط خبر لگائی ہے ان یہودیوں کے بچوں نے۔ ان پیلے صحافیوں کو کوئی بتائے کہ پاکستان ہر قسم کے موقف پر ہلکا ہاتھ رکھ سکتا ہے مگر اسرائیل کو ہرگز ہرگزقبول نہیں کرسکتا کیونکہ لاکھوں پاسپورٹس پر” یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کے ہر ممالک کےلئے کارآمد ہے” درج ہے،
اور اگر تسلیم کیا گیا تو لاکھوں پاسپورٹ دوبارہ بنے گے اور اس کے لئے "عربوں ” ڈالرز لگے گے جو ہمارے پاس نہیں ہے البتہ اگر کوئی تعاون کریں تو سوچا جاسکتا ہے اور پھر سوچ سے آگے جہان اور بھی ہی ہیں اور پھر جہان سے آگے ڈالرز بھی ہیں۔
بات یہ ہےکہ ہر چند سال بعد اسرائیل کے حوالے سے ایسی ویسی خبریں آنے لگتی ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے۔خبروں کا آنا ہی کسی گڑبڑ کی طرف اشارہ ہے۔
جس سال پاکستان انتھک اور بے مثال قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا اسی سال اسرائیل کی زبردستی ڈلیوری کرائی گئی مگر پاکستان نے اس زبردستی کی پیدائش کو قبول نہ کیا اور اسرائیل کے وجود کو ماننے سے انکاری رہا اور اب تلک انکار کررہا ہے گویا 73 سالوںمیں یہ واحد انکار ہے جو اب تک قائم ہے۔
یہ انکار قائم یوں بھی ہے کہ پاکستان مسلمان ملک ہے اور اسرائیل کا قبضہ وہ بھی بیت المقدس جیسی سرزمین پر، وہ مسلمانوں کو ناگوار تھا اور مسلمانان عالم روز اول سے اس ناجائز ریاست کے خلاف تھا۔
اسی بناء پر قائد اعظم نے اسرائیل کے خلاف ایک سخت موقف اختیار کیا جو اب تک جسمانی طور پر قائم ہے مگر روحانیت کافی کم ہوگئی ہے۔
اسرائیلی تھے تو چالاک اور ہوشیار بھی، انھوں نے آہستہ آہستہ کئی دہائیوں پر مبنی اپنا پلان مرتب کیا اور اپنی قبولیت کی راہ ہموار کرانے کے لئے مختلف طور طریقے اپنائے اور بہت حد تک کامیاب ہوگئے۔
اسرائیل نے ایک گاؤں بصورت سسرال ڈھونڈا اور پھر اس سے بندھن جوڑ لیا۔ سسرال علاقے میں مالی طور پر مستحکم تھا اور علاقے کے دوسرے گاؤں میں سب پر ٹیکا بھی تھا ۔
دوسرے گاؤں والے اسرئیل سے چڑے رہتے تھے مگر آہستہ آہستہ سسرال نے دوسرے گاؤں والوں سے تعلقات بحال کر ہی لیئے اور اسی سال کافی نئے رشتے وجود میں آئے اور ساتھ ساتھ پرانی رفاقتیں بھی بحال ہوئیں۔
اب سسرال نے اسرائیل کے سب سے اہم دشمن پر زور ڈالا ہے کہ بھئی اسرائیل اپنا یار ہے اپنا پیار ہے اس سے تو رشتہ جوڑ لو تمھارے معاملات صحیح کرادیں گے ہم۔مگر دشمن تو پھر پاکستان ٹہرا ایسے کیسے مانے گا،
پاکستانی محبت کچی ضرور ہے مگر دشمنی اٹل ہے اب بھارت سے دیکھ لیں یا پھر ہندوستان سے، اب تک کھل کر دھمکیاں لگاتے ہیں۔ خیر باتیں بہت ہوگئی ہیں اب سوچنا پاکستانیوں کو ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں کیونکہ جمہور کا فیصلہ ہی "سب کو” ماننا پڑے گا ۔لیکن ایک فیصلہ اور کیجیئے گا اور وہ اخلاقی فیصلہ ہے یعنی ظالم کے خلاف رہنے کا ، کیونکہ ظلم کے خلاف خاموش رہنے والا ایک نہ ایک دن ظلم کا نشانہ بنتا ہے۔
بشکریہ: جی ٹی وی نیٹ ورک